UK seeks answers about 'disappeared' Afghan women activistsتصویر سوشل میڈیا

لندن / کابل: افغانستان پر قبضے کے بعدپوری دنیا سے امارات اسلامیہ کو تسلیم کرنے کی فریاد کرنے والے طالبان پر اب برطانیہ نے بھی سخت تنقید کی اور افغان خواتین کارکنوں کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طالبان حکومت سے جواب طلب کیا ۔برطانیہ نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی سیکرٹری ڈیبورا لیونز کی بھی، جنہوں نے ان خواتین کارکنوں کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا تھا،حمایت کی ۔

افغانستان میں مقیم ناظم الامور ہیوگو شارٹر کا کہنا ہے کہ طالبان کو خواتین سماجی کارکنوں کی گمشدگی کا پوری دنیا کو جواب چاہئے۔ بہتر ہو گا کہ اس بارے میں افغان حکومت کچھ معلومات فراہم کرائے۔واضح ہو کہ گزشتہ سال 15 اگست کو طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ تقریبا ایک ماہ بعد طالبان نے اپنی حکومت قائم کی اور عالمی برادری سے حمایت کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔ طالبان حکومت نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ خواتین کو اسلامی قوانین کے مطابق مکمل حقوق دے گی۔ یہی نہیں طالبان نے حکومت میں خواتین کی شمولیت کی بات بھی کی تھی۔ لیکن حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک طالبان نے اپنی کئی ساری باتوں پر عمل نہیں کیا۔

عالمی برادری انہیں بار بار ان کے وعدوں کی یاد دہانی کراتی رہی ہے۔اس کے علاوہ اس حکومت کے دوران انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے بھی طالبان کے خلاف آواز اٹھائی اور الزام لگایا کہ وہ انہیں کام کرنے سے مسلسل روک رہے ہیں اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ان تنظیموں نے یہ بھی الزام لگایا کہ طالبان آواز اٹھانے والوں کو مسلسل غائب کر رہے ہیں۔ اس آواز کو دوبارہ اٹھانے کا کام اب برطانیہ نے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ماضی میں بھی کئی بار اس مطالبے کا اعادہ کیا جا چکا ہے۔ تاہم طالبان نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ سب کو مساوی حقوق دے رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *