UK, US pull some embassy staff from Ukraine amid Russian threatتصویر سوشل میڈیا

ماسکو:(اے یو ایس)روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران برطانیہ نے یوکرین میں واقع اپنے سفارت خانے میں تعینات عملے کی برطانیہ واپسی کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔حکام نے کہا ہے کہ برطانوی سفارتکاروں کو کوئی خاص خطرہ نہیں ہے تاہم تقریباً نصف سفارتی عملے کو واپس برطانیہ بلا لیا جائے گا۔یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ نے یوکرین میں تعینات اپنے سفارتی عملے کے خاندانوں کو فوری طور پر یہ کہتے ہوئے یوکرین چھوڑنے کا حکم دیا تھا کہ امریکی حکومت ہنگامی صورتحال میں امریکی شہریوں کے انخلا کی حالت میں نہیں ہو گی۔امریکہ کی جانب سے جاری اس بیان میں کہا گیا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کی اطلاعات موجود ہیں جبکہ دوسری جانب روس نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ یا مداخلت کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

امریکی دفتر خارجہ نے اپنے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ یوکرین یا روس کا سفر نہ کریں کیونکہ وہاں کشیدگی ہے اور ’امریکی شہریوں کو ہراساں کیے جانے کا امکان ہے۔دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ روس یوکرین کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کا منصوبہ بنا رہا ہے۔دفتر خارجہ کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ فی الحال یوکرین میں امریکہ کا سفارتخانہ کھلا ہے لیکن ’وائٹ ہاؤس سے مسلسل تنبیہ کی جا رہی ہے کہ کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے۔‘انھوں نے بتایا ہے کہ حکومت ’ایسی ہنگامی صورتحال میں امریکی شہریوں کے انخلا کی حالت میں نہیں ہو گی۔‘ یہ اقدام امریکہ کی ان احتیاطی تدابیر کا حصہ ہے جو دفتر خارجہ اس وقت نافذ کرتا ہے جب کسی بحران کی وجہ سے امریکی سفارتی عملے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔خیال ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں ایسی کوئی اہم پیشرفت نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر امریکی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

بین الاقوامی فوجی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ روس کی جانب سے اپنی سرحد پر قریب ایک لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کے بعد یورپ میں ایک نئی لڑائی کا خطرہ موجود ہے۔سنیچر کو امریکہ کی طرف سے بھیجی گئی قریباً 90 ٹن فوجی امداد یوکرین پہنچائی گئی جس میں صف اول کے فوجیوں کے لیے ہتھیار بھی شامل تھے۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ صدر پوتن کیا سوچ رہے ہیں یہ سمجھنے کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے جن میں یوکرین کا دفاع بڑھانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں۔روس نے اس سے قبل بھی یوکرین کے خطے پر قبضہ کیا تھا۔ سنہ 2014 میں جب کریمیا میں ماسکو کے حمایت یافتہ صدر کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو روس نے کریمیا میں مداخلت کر کے اسے اپنے اندر ضم کر لیا تھا۔اس وقت سے مشرقی روس کے سرحدی علاقوں میں یوکرین کی فوج اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ دنباس کے خطے میں اب تک قریباً 14 ہزار افراد مارے گئے ہیں۔

اتوار کو برطانوی دفتر خارجہ نے صدر پوتن پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین میں ماسکو کے حمایت یافتہ رہنما کو لانا چاہتے ہیں۔برطانوی وزرا نے متنبہ کیا ہے کہ یوکرین میں کسی مداخلت یا حملے کی صورت میں روسی حکومت کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کیا جائے گا۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس یوکرین کی حکومت گرانے اور تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ تاہم انھوں نے برطانوی دفتر خارجہ کے حالیہ بیان پر اپنا ردعمل ظاہر نہیںکیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *