Ukraine's ambassador urges Israel to sell its Iron Dome rocket interception system to my countryتصویر سوشل میڈیا

قیف: (اے یو ایس ) روس کے حملوں کی زد میں رہنے والے یوکرین نے اپنے شہریوں اور تنصیبات کو روسی شارٹ رینج میزائلوں، راکٹوں اور توپ خانے سے محفوظ رکھنے کے لیے اسرائیلی ساختہ آئرن ڈوم حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔آئرن ڈوم سسٹم بنیادی طور پر میزائل شکن نظام ہے۔ جو میزائلوں اور راکٹوں کو فضا میں روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاکہ زمین پر ہدف بنائی گئی تنصیبات اور آبادیاں راکٹ حملوں اور میزائلوں سے محفوظ بنائی جا سکیں۔ اس کی مدد سے توپ خانے کی کارروائیوں کو بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

یہ اسرائیلی آئرن ڈوم ٹینکوں سے داغے گئے میزائلوں کو بھی ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں یوکرین کے اسرائیل میں سفیر نے اپنی حکومت سے رابطہ کر کے آئرن ڈوم کے حصول کی کوشش شروع کر دی ہیں۔ تاکہ یوکرین کے لیے اسرائیل کی زبانی حمایت کو آگے بڑھا کر فوجی معاونت اور مدد مٰیں تبدیل کیا جا سکے۔تل ابیب میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران یوکرینی سفیر نے کہا ان کا ملک آئرن ڈوم سسٹم خریدنا چاہتا ہے اور انہیں پختہ امید ہے کہ امریکہ، یوکرین کی اس خریداری کی مخالفت نہیں کرنے گا۔ واضح رہے امریکہ سالہا سال سے اسرائیل کے اس میزائل شکن دفاعی نظام کے لیے مالی امداد دے رہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق یہ مالی امداد 1.6 چھ ارب ڈالر ہے۔ تاکہ اینٹی میزائل سسٹم کی تیاری وپیداواری اور مرمت کی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔دوسری جانب اسرائیل نے یوکرین کے لیے روس کے خلاف امداد کو محض انسانی بنیادوں تک محدود رکھنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ اس پس منظر میں یوکرین کے سفیر نے اپنی نیوز کانفرنس میں یہ تو نہیں کہا کہ اسرائیل یوکرین کو آئرن ڈوم میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے البتہ یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ اسرائیلی حکومت ہمارے لیے اپنی زبانی حمایت کو عسکری حمایت میں تبدیل کرے۔اسرئیل میں یوکرینی سفیر نے یہ بھی کہا پچھلے ہفتے جرمنی کو سپائیک نامی ٹینک شکن میزائل سسٹم دینے کی ایک امریکی درخواست اسرائیل نے مسترد کر دی ہے۔ اسرائیل کو خوف ہے کہ یوکرین کو بھی اس سے زیادہ مدد دی تو روس مشتعل ہو گا۔ جو کہ اسرائیل کے پڑوسی ملک شام میں اپنی فوجی موجودگی بھی رکھتا ہے۔ اس لیے یوکرین کے لیےاس کی جاری جنگ میں امداد صرف فیلڈ اسپتال بنانے تک ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *