Umar Khayyam's prediction of his own grave was proved to be trueتصویر سوشل میڈیا

تہران (اے یو ایس )مشہور فارسی شاعر اور مفکر عمر خیام نے اپنی قبرکے بارے میں پیشین گوئی تھی کی جو حر ف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ۔ گیاریں صدی میں پیدا ہونے والے عمر خیام فلسفی نجوم اور ریاض دانی کے عالم اور شاعری ان کا ایک مشغلہ تھا لیکن ان کی لافانی ”رباعیات عمر خیام “ ہزار سال بعد بھی اتنی ہی مقبول ہے اور اس کا اثر نہ صرف ایشیاءکے ملکوں میں پا یا جاتا ہے بلکی مغرب میں بھی وہ کافی مشہور ہیں۔ ان کے نام پر کئی فلمیں بنائی گئیں ہے اور ان کی رباعیات کا ذکر سینکڑوں فارسی اور انگریزی کتابوں میں ملتا ہے۔ خیام نے اپنی قبر کی نسبت اپنی زندگی میں ایک عجیب پیشگوئی کی تھی جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔

خیام کے شاگرد نظامی عروضی اپنی معروف تصنیف ’چہار مقالہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سنہ 506 ہجری میں شہر بلخ میں بردہ فروشوں کی گلی میں امام عمر خیام اور خواجہ مظفر اسفزاری ٹھہرے تھے۔ میں ان سے ملنے گیا تو خیام نے باتوں باتوں میں کہا کہ میری قبر ایسی جگہ ہو گی جہاں ہر موسم بہار میں باد شمال اس پر پھول برسائے گی۔‘عروضی کہتے ہیں کہ ’مجھے ان کی یہ پیشگوئی محال معلوم ہوئی لیکن میں جانتا تھا کہ خیام لغو نہیں بکتے۔ 530 میں جب نیشاپور پہنچا تو خیام کی موت کو چند سال گزر چکے تھے۔ مجھ پر ان کی استادی کا حق تھا، جمعے کے دن ان کی زیارت کو گیا، ایک شخص کو اپنے ساتھ لے گیا کہ اس کی قبر کا پتا مجھے بتائے، وہ مجھے گورستان حیرہ میں لے گیا۔ بائیں ہاتھ مڑا تو باغ کی دیوار کے نیچے قبر پائی، دیکھا کہ امرود اور زرد آلو کے درخت لگے ہیں اور پھولوں کی اتنی پتیاں گری ہیں کہ قبر بالکل ڈھک گئی۔

اس وقت مجھ کو بلخ کا واقعہ یاد آیا اور میں رو پڑا۔‘ان کے علاوہ اگر عمر خیام کے اشعار پر انگریزی کے معروف شاعر یوجین او نیل، اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ وغیرہ نے اپنی تصانیف کے نام رکھے تو وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیو منرو عمر خیام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے اپنا قلمی نام ہی ’ساقی‘ رکھ لیا۔کلکتہ یونیورسٹی میں فارسی کے استاد ڈاکٹر محمد شکیل کا کہنا ہے کہ ان سب کے باوجود خیام کی حےات اور ان کی پیدائش کے بارے میں کم معلومات ہیں اور جو معلومات ہیں ان میں بہت سی باتوں پر تاریخ، ادب کے ماہرین میں اختلاف رائے ہے۔یہی بات سید سلیمان ندوی نے اپنی تصنیف ’خیام‘ میں کہی ہے کہ ’جس شخصیت یا موضوع پر جتنا زیادہ لکھا جاتا ہے اس میں اتنا ہی تنوع اور تضاد ملتا ہے۔‘اسی سلسلے میں مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی حیدرآباد میں فارسی کے استاد ڈاکٹر قیصر احمد کا کہنا ہے کہ خیام کی شہرت کے باوجود ان کا علم عام نہیں۔دلیل کے طور پر وہ معروف سائنسدان سر آئزک نیوٹن کے اس بیان کو پیش کرتے ہیں جس میں انھوں نے خود کو علم کے سمندر کے ساحل پر کنکریاں چنتے ہوئے بچے کی مانند کہا تھا۔

عام روایت سے پتا چلتا ہے کہ ان کی پیدائش نیشا پور میں سنہ 1024 اور 1029 کے درمیان ہوئی جبکہ ان کے ہم عصر ابو ظہیرالدین بیہقی نے ان کی پیدائش سنہ 1048 بتائی ہے۔ان کی طالب علمی کا ایک مشہور قصہ فٹزجیرالڈ سمیت بہت سے لوگوں نے نقل کیا۔ قصہ یوں ہے کہ اپنے زمانے کے معروف عالم اور دانشور نظام الملک طوسی، حسن صباح اور عمر خیام ہم جماعت تھے۔ خیام کی وجہ شہرت آج ان کی رباعیات ہیں جن کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے لیکن ان کی رباعیات میں کیا ہے جو آج تک لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے ہوئے ہے۔خیام کی رباعیات کے بارے میں مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ ’خیام کی رباعیاں اگرچہ سینکڑوں ہزاروں ہیں لیکن سب کا قدر مشترک صرف چند مضامین ہیں: دنیا کی بے ثباتی، خوش دلی کی ترغیب، شراب کی تعریف، مسئلہ جبر، توبہ استغفار وغیرہ ہے۔‘امام بغدادی نے کہا کہعمر خیام تصوف کی ایک کتاب پڑھ رہے تھے اور جب وحدت و کثرت کے بیان پر پہنچے تو کتاب بند کر دی۔’انھوں نے مجھ سے کہا کہ میرے دوستوں کو بلاو¿۔ میں نے فردا فردا سب کو بلایا۔ جب سب جمع ہو گئے تو انھوں نے کسی کی جانب التفات نہ کیا اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ظہر عصر سے فارغ ہوئے تو سجدے میں رو رو کر کہنے لگے ’اے خدا تو نے مجھ جس قدر علم بخشا، میں نے تیرے پہچاننے میں کمی نہ کی۔ اب تو مجھے بخش دے کیونکہ ترا علم تیرے نزدیک میرا شفیع ہے۔‘
اس کے بعد ان کی روح پرواز ہو گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *