اقوام متحدہ،: (اے یو ایس) اقوام متحدہ کے تحت اداروں نے منگل کے روزعطیہ دہندگان سے 2022 میں افغانستان کے لیے انسانی امداد کی شکل میں چارارب 40 کروڑڈالرمہیا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اپیل کردہ رقم ملک کے جی ڈی پی کا تقریباً ایک چوتھائی ہے اور یہ کسی ایک ملک کے لیے اب تک کی سب سے بڑی اپیل ہے۔یہ 2021 میں امریکا کی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے وقت موصول ہونے والے اعداد وشمار سے تین گنا زیادہ ہے۔اقوام متحدہ کے تحت امدادی ادارے کے سربراہ مارٹن گریفیتھس نے جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک عبوری اقدام ہے جسے ہم آج عالمی برادری کے سامنے رکھ رہے ہیں۔اس کے بغیر جنگ زدہ ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔
گذشتہ سال اگست میں طالبان کی فتح اورغیرملکی افواج کے اچانک انخلا نےافغانستان کی نازک معیشت کو تباہی کے دہانے پرپہنچا دیا تھا۔امریکا اوراس کے اتحادی ممالک نے افغانستان کے مرکزی بنک کے اثاثے روک رکھے ہیں اور عالمی امدادی اداروں نے امداد بھی روک لی ہے جس کے نتیجے میں جنگ زدہ ملک مزید معاشی بحران سے دوچار ہوگیا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہواہے اور وسیع پیمانے پر بھوک پھیل گئی ہے۔طالبان پرعائد مغربی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان کو خوراک اورادویہ کی ترسیل رک چکی ہے۔
تاہم مارٹن گریفیتھس کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انسانی منصوبہ کو ’ احتیاط سے وضع“کیا گیا ہے تاکہ امداد براہ راست ضرورت مند لوگوں کو ملے اور حکام کے ہاتھ نہ لگے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرینڈی نے کہا ہے کہافغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سکیورٹی بہتر ہوئی ہے اور طویل جنگی تنازع سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کی وطن واپسی کا موقع پیدا ہوا ہے۔انھوں نے بتایا کہ جب سے طالبان نے اقتدارپرقبضہ کیا ہے، ایک لاکھ 70 ہزارسے زیادہ افغان پہلے ہی وطن واپس آچکے ہیں۔گرینڈی نے کہا کہ طالبان اورسابقہ حکومت کے درمیان تنازع ختم ہوچکا ہے اوراس سے امن وسلامتی کا موقع پیدا ہوا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے ہمیں وسائل کی ضرورت ہے۔