اسلام آباد:(اے یو ایس ) پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے نظریے اور سیاست کے مطابق اس کا حکومت کے ساتھ مزید ایک دن رہنا عوام کا مطالبہ نہیں، پتہ نہیں ایم کیو ایم کس مجبوری کے تحت حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔
کراچی کے ضلع کورنگی میں فشرمین چورنگی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ‘پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جو ملک کی پوری معیشت کو چلاتا ہے، افسوس کی بات ہے کہ زمانے سے جو لوگ یہاں سے منتخب ہوتے رہے ہیں وہ ہر حکومت کا حصہ تو رہے ہیں مگر اپنے عوام اور اپنے شہر کو اس کا حصہ نہیں دلوا سکے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ہمارا حصہ نہ ملنے پر سب سے زیادہ کراچی متاثر ہوا ہے، عالمی بینک نے کہا کہ کراچی کے انفرااسٹرکچر کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، ہم جب 10 ارب ڈالر کی بات کرتے ہیں تو مذاق اڑایا جاتا تھا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘کراچی میں سرمایہ کاری ہوگی تو اس کا اثر پورے پاکستان پر ہوگا، کراچی چکے گا تو پورا پاکستان چلے گا، وفاق نے فنڈز نہیں دیے اور نہ بلدیاتی حکومت نے ہمارا ساتھ دیا، اس کے باوجود ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جو ہو سکے کریں تاکہ کراچی کی مشکلات کم ہوں، جبکہ وسائل نہ ہونے کے باوجود عوام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور ویسٹ مینجمنٹ کا نظام بن رہا ہے، نیبرہوڈولیج کراچی کے ہر ضلع تک پہنچے گا، ایم کیو ایم کے نمایندے میری پیدائش سے پہلے سے سلیکٹ ہوتے رہے ہیں، ایم کیو ایم کے نمایندوں سے پوچھیں کورنگی کے لیے کیا کیا؟’بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ‘زیادہ بات، شور اور حکومت کے مزے لینے والے کراچی کے عوام کی طرف دھیان دیں، ان کی حکومت کا جو طریقہ ہے اس سے کراچی کے عوام کا حق مارا جارہا ہے، مردم شماری کے معاملے پر پیپلز پارٹی کا شروع سے اعتراض موجود ہے کیونکہ مردم شماری غلط ہوگی اور عوام کی نمائندگی ٹھیک نہیں ہوگی تو انہیں ان کے حصے کا حق نہیں ملے گا’۔
انہوں نے ایم کیو ایم سے متعلق کیا کہ ‘ایم کیو ایم میری سمجھ سے باہر ہے، ایم کیو ایم کے نظریے اور سیاست کے مطابق اس کا حکومت کے ساتھ مزید ایک دن رہنا عوام کا مطالبہ نہیں، پتہ نہیں ایم کیو ایم کس مجبوری کے تحت حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، ایم کیو ایم کے ووٹوں کی وجہ سے حکومت قائم ہے، آپ اپنی مجبوری کے بجائے عوام کی مجبوری کے بارے میں سوچیں’۔وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘عوام کے لیے کھانے پینے کی اشیا کا بندوبست کرنا، بچوں کو اسکول بھیجنا، ادویات خریدنا دوبھر ہوگیا ہے، وفاقی حکومت کے اقدامات عوام کی پریشانیوں اور تکالیف میں کمی لانے کے بجائے اس میں اضافہ کر رہے ہیں’۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے جزیروں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘جب بھی ان جزیروں پر قبضے کی کوشش کی گئی پیپلز پارٹی ماہی گیروں کی آواز بن کر سامنے آئی، اس حکومت نے جزیروں پر قبضے کے لیے جو غیر قانونی آرڈیننس منظور کیا تھا اس کی مدت پوری ہوچکی ہے، اب ان کو عوام کے پاس آنا پڑے گا اور میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ جزیرے صوبے کے عوام اور یہاں کے ماہی گیروں کے ہیں اور جب تک ان ماہی گیروں اور عوام کو مطمئن نہیں کریں گے تب تک ہم آپ کو وہاں ایک اینٹ نہیں ڈالنے دیں گے’۔اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاقی وزرا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے اجلاسوں میں غریب عوام کے مسائل پر گفتگو نہیں کرتے بلکہ یہ بات ہوتی ہے کہ حکومت سندھ کی برائی کیا کی جائے کیونکہ صادق و امین کے چمچے سندھ کی ترقی دیکھ نہیں سکتے۔
انہوں نے تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ وفاق وزرا پھر میڈیا پر بھی یہ رپورٹ کرتے ہیں اور پھر میڈیا پر اس کا شور مچ جاتا ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میڈیا کو وزرا کی متنازع باتیں درکار ہوتی ہیں اور پھر ایک شور برپا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں سندھ کے دشمن اور یہ چمچے اپنی اپنی بکواس شروع کردیتے ہیں۔انہوں نے کراچی کے حوالے سے کہا کہ ابراہیم حیدری اور عمر کالونی کے روڈ بھی پراجیکٹ میں شامل ہیں۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں مختلف مقامات پر سڑکوں کی بہتری کے لیے 5 کروڑ روپے دیے تھے۔انہوں نے کہا کہ نیبر ہوڈ امپر دومنٹ پراجیکٹ میں ککری گراو¿نڈ کو شامل کیا ہے۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی کو اپنا وارث سمجھنے والوں نے کراچی کا جو حال کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں تجاوزات کو ہٹانے کا کام صوبائی حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ ڈی ایم سیز اور کے ایم سی کا کام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تجاوزات کرواتے بھی وہی ہیں اور جب ہٹانے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کوئی اختیارات نہیں دیتی۔انہوں نے کہا کہ ’آپ نے اپنے اختیارات کی بنیاد پر تجاوزات کی اجازت دی اور اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا‘۔علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت کے حوالے سے کہا کہ وفاقی حکومت نے 63 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا ہمیں اس سے کم ملے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسی بنیاد ہم پبلک پارٹنرز کی طرف جارہے ہیں، یہ قرضے ہیں جنہیں آنے والی نسلوں کو واپس کرنے ہیں لیکن اس وقت شہر کو ڈیولپمنٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے اختتامی کلمات میں ورلڈ بینک کے نمائندوں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے مختلف ترقیاتی منصوبوں میں خصوصی دلچسپی دکھائی۔