Unofficial by-poll results: PML-N leads on three seats, PTI on oneتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد:(اے یو ایس ) پاکستان میں مختلف اراکین کی وفات اور دیگر وجوہات پر قومی و صوبائی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کی آمد سے قبل ہی کئی تنازعات سامنے آئے ہیں۔پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 75 پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج روک لیے گئے ہیں۔ اس حلقے میں انتخابات میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور فائرنگ میں دو افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختونخوا میں اپ سیٹ کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور موجودہ وزیرِ دفاع پرویز خٹک کے آبائی علاقے کی صوبائی نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔ان انتخابات میں اب تک کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق حکمران جماعت تحریک انصاف صرف ایک نشست این اے-45کرم ایجنسی میں برتری ہوئی ہے۔ حکومتی وزرا کی جانب سے ضمنی انتخاب کو شفاف قرار دیا جا رہا ہے۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا کہ پہلی بار پاکستان میں ایسے انتخابات ہوئے ہیں جن میں حکومت کی کوئی مداخلت نہیں تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جس طرح ضمنی انتخابات کراتی تھی لوگ کہتے تھے الیکشن تو رسمی ہی ہیں جیتنا تو حکومت نے ہی ہے۔ملک بھر میں ضمنی انتخابات کے موقع پر سب سے اہم اور دلچسپ مقابلہ سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کے آبائی ضلع نوشہرہ کے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے-63 پر ہوا۔اس حلقے میں 19 فروری کو ہونے والے الیکشن کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اختیار ولی نے حکمران جماعت تحریک انصاف کے میاں محمد عمر کو شکست دے کر اپ سیٹ کر دیا ہے۔یہ نشست میاں محمد عمر کے والد اور سابق صوبائی وزیر جمشید الدین کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔منتخب امیدوار اختیار ولی نے 21122 ووٹ حاصل کیے جب کہ محمد عمر 17023 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔مبصرین کے مطابق نوشہرہ کی اسی نشست پر حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدوار کی شکست کی اصل وجہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو حزبِ اختلاف کے تین اہم جماعتوں پیپلز پارٹی، جمعیت علماءاسلام (ف) اور قومی وطن پارٹی کی حمایت حاصل ہونا ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس کے علاوہ پرویز خٹک سے ناراض ان کے بھائی صوبائی وزیر لیاقت خٹک اور ان کے بیٹے سابق تحصیل ناظم احد خٹک کی حمایت بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو حاصل تھی۔مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے ضمنی انتخابات کے موقع پر پشاور میں وزیر اعلیٰ محمود خان اور گورنر شاہ فرمان سے ملاقات کی تھی جس میں پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک کو صوبائی وزارت سے علیحدہ کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی گئی تھی۔تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق ضمنی انتخابات میں لیاقت خٹک اپنے بیٹے احد خٹک کو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نامزدگی کے خواہش مند تھے۔ چند روز قبل لیاقت خٹک نے وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تھا اور کہا تھا کہ وہ صوبائی وزیر کے حیثیت سے مکمل طور پر بے اختیار ہیں۔صوبائی وزیرِ محنت و ثقافت شوکت یوسف زئی نے ضمنی انتخابات پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ نوشہرہ میں تحریک انصاف کو تحریک انصاف نے ہی شکست دی ہے۔ ان کے بقول نوشہرہ کی سیٹ پر شکست پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ ہے۔دوسری جانب اس شکست کے بعد لیاقت خٹک سے وزارت واپس لے لی گئی ہے۔وزارت واپس لینے کا باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

سرکاری اعلامیہ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش کا کہنا تھا کہ صوبائی وزیر لیاقت خٹک کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت پر عمران خان سے منظوری کے بعد کابینہ سے فارغ کیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کا یہ حلقہ موجودہ ضمنی انتخابات میں اب تک کا سب سے متنازع حلقہ ہے جہاں پر الیکشن کمیشن نے نتیجہ روک لیا ہے۔ڈسکہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے-75 پر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے علی اسجد خان اور مسلم لیگ (ن) کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔اس حلقے میں 19 فروری کو الیکشن کے بعد 20 پولنگ اسیٹشنز کا عملہ نتائج کے ہمراہ ریٹرننگ افسر کے پاس نہیں پہنچ سکا تھا جس کی وجہ سے رات گئے تک مکمل نتائج سامنے نہیں آ سکے تھے۔غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کو اپنے مد مقابل پر معمولی برتری حاصل تھی جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے امیدوار کی کامیابی کے دعوے کیے۔الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ پریذائیڈنگ افسران سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی مگر اس میں ناکامی ہوئی۔الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ کافی تگ و دو کے بعد صبح 6 بجے پریذائیڈنگ افسران، پولنگ بیگز سمیت واپس آئے۔

ڈی آر او اور آر او کو ان پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں رد و بدل کا شبہ ہے۔ اس لیے مکمل تحقیقات کے بغیر این اے-75 کا نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں ہے۔سامنے آنے والے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق 360 پولنگ اسٹیشنز میں سے 213 پولنگ اسٹیشنز میں مسلم لیگ (ن) کی سیدہ نوشین افتخار 61571 ووٹ لے کر آگے تھیں جب کہ پی ٹی آئی کے علی اسجد خان 55872 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر ہیں۔اس حلقہ میں ووٹرز کی کل تعداد چار لاکھ چار ہزار ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی شہباز گِل نے اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی جیت کا اعلان کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی این اے-75 کا الیکشن سات ہزار 827 ووٹوں سے جیت چکی ہے۔شہباز گِل کا کہنا تھا کہ این اے 75 کا نتیجہ صبح پانچ بج کر 40 منٹ پر آ چکا ہے تاہم آر او نارووال کے رہنے والے ہیں، جو احسن اقبال کے دباو¿ میں نتائج روک کر بیٹھے ہیں۔دوسری طرف اپوزیشن کی طرف سے اس حلقے میں کامیابی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی امیدوار سیدہ نوشین جیت رہی تھیں۔پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی-51 وزیر آباد میں 19 فروری کو ضمنی انتخاب میں 162 پولنگ اسٹیشنز کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی بیگم طلعت محمود 53903 ووٹ لے کر کامیاب آگے رہیں۔ جب کہ تحریک انصاف کے چوہدری یوسف 48484 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔حلقہ پی پی 51 کی نشست مسلم لیگ (ن) کے شوکت منظور چیمہ کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔ یہاں ووٹرز کی کل تعداد دو لاکھ 53 ہزار 949 ہے۔ جب کہ 162 پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ہوئی۔

اس نشست پر بھی سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا ہے اور مریم نواز بھی یہاں انتخابی مہم میں شریک ہوئی تھیں۔رواں ماہ 16 فروری کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس-43 سانگھڑ کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار جام شبیر علی نے کامیابی حاصل کی ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق 132 پولنگ اسٹیشنز کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے جام شبیر علی 48 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے مشتاق جونیجو چھ ہزار 925 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ واضح رہےکہ اس حلقے میں ووٹرز کی کل تعداد ایک لاکھ 57 ہزار 210 تھی۔یہ نشست پیپلز پارٹی کے جام مدد علی کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔اس نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں مجموعی طور پر سات امیدوار حصہ لے رہے تھے۔ تاہم اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے جام شبیر علی اور پی ٹی آئی کے مشتاق جونیجو کے درمیان قرار دیا جا رہا تھا جس میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب رہے۔کراچی کے سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس-88 میں ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے یوسف مرتضیٰ بلوچ 24 ہزار 251 ووٹ لے کر کامیاب رہے۔اس حلقے کے تمام 108 پولنگ اسٹیشنز کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتیجے کے مطابق دوسرے نمبر پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سید کاشف علی نے چھ ہزار 90 ووٹ لیے۔

پی ٹی آئی کے جان شیر جونیجو چار ہزار 870 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ جب کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ساجد احمد نے دو ہزار 635 ووٹ لیے۔یہ نشست پیپلز پارٹی کے غلام مرتضیٰ بلوچ کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔اس حلقہ میں پولنگ کے دوران بعض پولنگ اسٹیشنز اور کئی علاقوں میں صورت حال کشیدہ رہی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کارکنان آمنے سامنے آئے اور شدید نعرے بازی کی گئی۔ایس ایس پی ملیر نے الیکشن کمیشن کے حکم پر سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی کے رہنما حلیم عادل شیخ کو پی ایس-88 کے حلقے سے بے دخل کیا تھا۔بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے لیے رواں ماہ 16 فروری کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران یہ نشست جمعیت علماء اسلام (ف) کے سید عزیز اللہ آغا نے 16 ہزار 86 ووٹ لے کر جیتی۔اس نشست پر دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار آغا عصمت اللہ چار ہزار 681 ووٹ لے سکے۔ جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے عصمت اللہ ترین دو ہزار 963 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔یہ نشست 2018 کے انتخابات میں جے یو آئی کو ہی ملی تھی اور ایم پی اے سید فضل آغا کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔سینیٹ انتخابات کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی کے اس انتخاب کو بہت اہمیت دی جا رہی تھی۔ لیکن جے یو آئی اے نے اس میں اہم کامیابی حاصل کی۔خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجے کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار ملک فخر زمان 16911 ووٹ لے کر باقی امیدواروں سے آگے رہے۔

ضمنی انتخابات کے دوران یہ واحد نشست ہے جس پر پی ٹی آئی کو سبقت حاصل ہوئی۔ جب کہ جے یو آئی کو اپنی نشست سے دستبردار ہونا پڑ رہا ہے۔حلقے کے تمام 134 پولنگ اسٹیشنوں کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجے کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار ملک فخر زمان 16313 ووٹ لے آگے رہے گئے۔ جے یو آئی (ف) کے امیدوار ملک جمیل خان 15760 سے زائد ووٹ لے کر دوسرے اور آزاد امیدوار سید جمال 15145 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔این اے 45 ضلع کرم کی یہ نشست جے یو آئی کے ایم این اے منیر خان اورکزئی کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔اس حلقے کے نتائج پر تنازع بھی ہے کیوں کہ جمعیت علمائ اسلام (ف) اور آزاد امیدوار جمیل خان چمکنی بھی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔جے یو آئی (ف) کے قبائلی اضلاع کے لیے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی مفتی عبد الشکور نے ایک بیان میں حکومت پر نتائج تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔حکومتی ارکان نے اسے محض الزام تراشی قرار دیا ہے۔جے یو آئی (ف) کے مفتی عبدالشکور کہتے ہیں کہ این اے-45 میں دھاندلی کسی صورت منظور نہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ آخری لمحات میں جے یو آئی کی کامیابی کو شکست میں تبدیل کیا گیا۔ان کے بقول وہ قانونی کارروائی کے لیے درخواست دے رہے ہیں اور احتجاج کا آپشن بھی موجود ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *