US approves military aid for Taiwan under programme for sovereign statesتصویر سوشل میڈیا

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے پہلی بار غیر ملکی حکومتوں کے لیے ایک امدادی پروگرام کے تحت تائیوان کو براہ راست امریکی فوجی امداد کی منظوری دی ہے جہاں چین کے حوالے سے تشویش بڑھ رہی ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے منگل (29 اگست) کو کانگریس کو 8 کروڑ ڈالر کے فوجی امداد کے بارے میں آگاہ کیا، جو تائیوان کو حالیہ فروخت کے مقابلے میں چھوٹا ہے لیکن غیر ملکی فوجی مالیاتی پروگرام کے تحت تائی پے کو پہلی امداد کی نشاندہی ہے، جس میں عام طور پر خود مختار ممالک کو گرانٹس یا قرضے شامل ہوتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام یقینی طور پر چین کو ناراض کرے گا۔ پانچ دہائیوں سے امریکا نے سرکاری طور پر صرف بیجنگ کو تسلیم کیا ہے، حالانکہ تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت کانگریس، خود مختار جزیرے کو اپنے دفاع کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کا تقاضا کرتی ہے۔

موجودہ امریکی انتظامیہ نے تائیوان کو امداد دینے کا فیصلہ براہ راست امداد کے بجائے سیلز کے ذریعے کیا ہے، جہاں واشنگٹن میں جزیرے کے ڈی فیکٹو سفارت خانے کے ساتھ کاروباری لین دین کے لہجے میں رسمی بیانات دیے گئے۔امریکی محکمہ خارجہ نے اصرار کیا کہ اس پروگرام کے تحت پہلی امداد کا مطلب تائیوان کی خودمختاری کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تائیوان ریلیشنز ایکٹ اور ہماری دیرینہ ون چائنا پالیسی کے مطابق، امریکا، تائیوان کے دفاعی مضامین اور ضروری سروسز کو یقینی بنانا ہے تاکہ وہ اپنے دفاع کی کافی صلاحیت کو برقرار رکھ سکے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکا کی آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام میں مستقل دلچسپی ہے، جو کہ علاقائی اور عالمی سلامتی اور خوشحالی کے لیے اہم ہے۔ادھر تائیوان کی وزارت دفاع نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ امداد علاقائی امن اور استحکام میں مددگار ثابت ہوگی۔محکمہ خارجہ نے اس امداد کا باضابطہ اعلان یا تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن نوٹس سے واقف ایک شخص نے کہا کہ اس امداد میں سمندر میں آگاہی کو بہتر بنانے کے لیے مدد شامل ہوگی۔خیال رہے کہ اس امداد کے لیے کانگریس سے منظوری درکار ہے، جو عملی طور پر یقینی ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کے قانون ساز تائیوان کی حمایت کرتے ہیں۔ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین اور جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی کے ناقد مائیک میکول نے بھی اس قدم کی تعریف کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *