واشنگٹن:(اے یو ایس ) امریکی فوج کے ریٹائرڈ فور اسٹار جنرل ویسلی کلارک کا کہنا ہے کہ امریکہ نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن ہو سکتا ہے کہ بالآخر امریکہ طالبان حکومت کو تسلیم کر لے۔اپنے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اسٹرٹیجک اور اقتصادی اعتبار سے امریکہ کے لیے اہم ملک ہے کیوں کہ روس اور چین کے بھی اس ملک میں اپنے اپنے مفادات ہیں اور وہاں کے کچھ حلقے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر زور دے سکتے ہیں۔جنرل ویسلی کلارک جو بطور ناٹو کمانڈر یورپ میں خدمات سرانجام دے چکے کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت مےں خواتےن کو ان کے حقوق شاید کبھی بھی نہ مل سکےں۔ ان کے بقول ایسا صرف ان دو صورتوں مےں ممکن ہے اگر طالبان اپنا نظرےہ بدل لےں ا وہ ےہ سمجھ سکےں کہ ایسا کرنے سے مغرب کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہوں گے۔
جنرل ویسلی کلارک نے یہ بات ایسے وقت میں کہی ہے جب روس، چین اور پاکستان کے نمائندے طالبان کے ساتھ روابط بڑھانے پر زور دے رہے ہیں اور طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا نام اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے مندوب کے طور پر سامنے آنے پر دنیا کی جانب سے کوئی خاص ردِعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔چین نے ستمبر کے شروع میں افغانستان کے لیے دو سو ملین (اکتیس ملین ڈالر) کی امداد کا اعلان کےا تھا۔ جنرل وےسلی کلارک نے چین کو خطے میں طویل مدتی اور اہم سیاسی امیدوار قرار تو دیا مگر اس پر تنقید کرتے ہویہ بھی کہا کہ بین الاقوامی سطح پر چین مغربی جمہوری اقدار کی دور دور تک پاسداری نہےں کرتا- ان کے مطابق چےن تمام بین الاقوامی قوانین اور ضوابط اپنے حق میں موڑ لینا چاہتا ہے۔
داعش سے نمٹنے کے لیے امریکہ اور طالبان کے ممکنہ اتحاد سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں جنرل کلارک کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں طالبان کے ساتھ کسی بھی طرح کا اتحاد مشکل ہو گا، چاہے وہ داعش سے نمٹنے کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ بعض معاملات پر معلومات کے تبادلے تک طالبان کے ساتھ تعاون ہو سکتا ہے، لیکن امریکہ کو پھر بھی یہ شبہ رہے گا کہ طالبان کو دی گئی معلومات کسی اور مقصد کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ شاید طالبان یہ معلومات امریکہ کو شرمندہ کرنے یا دیگر مسائل پیدا کرنے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ا±ن کے بقول طالبان کو بھی امریکہ کے ساتھ کام کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی کیوں کہ وہ (طالبان) جانتے ہیں کہ وہ جس طرزِ حکمرانی پر چل رہے ہیں ہم (امریکہ) اس کو قبول نہیں کر رہے۔بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جنرل ویسلی کلارک کا کہنا تھا کہ یہ خطرہ بہت نمایاں ہے کیوں کہ داعش افغانستان کے علاوہ شمالی افریقہ میں بھی ہے اور وہاں اس کی دیگر شاخیں بھی ہیں جب کہ یمن اب بھی دہشت گردی کا گڑھ ہے، لہذٰا حکومتیں خطرے میں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خطرہ تکنیکی بھی ہو سکتا ہے کہ کیوں کہ داعش کے لوگ سائبر حملوں پر کام کر رہے ہیں اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کو سائبر دخل اندازی کا سامنا ہے۔
جنرل کلارک کہتے ہیں کہ دہشت گرد سائبر حملوں کے ذریعے بینک اکاؤنٹس میں دخل اندازی، انفراسٹرکچر کو بند کرنے یا’ رینسم ویئر‘ (کسی شخص کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر کے تاوان کا تقاضا کرنا) جیسی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔جنرل ویسلی کلارک کا کہنا تھا کہ فرانس امریکہ کا ایک اہم شراکت دار ہے اور عسکری معاملات میں امریکہ کے بہت قریب رہا ہے۔ لہذٰا ان کے خیال میں فرانس وہی کردار دوبارہ چاہتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آبدوز معاہدہ فرانس کی معیشت اور وقار کے لیے دھچکہ ہے، لیکن ایسے طریقے ہیں جنہیں بروئے کار لا کر فرانس کے ساتھ معاملات درست کیے جا سکتے ہیں۔خیال رہے کہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین حال ہی میں ہونے والے ایک سیکیورٹی معاہدے (آکوس) پر فرانس امریکہ سے نالاں ہے۔معاہدے کے تحت امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو جوہری آبدوزی کی تیاری میں مدد دیں گے، اس معاہدے سے فرانس کو باہر رکھنے پر فرانس کے وزیرِ خارجہ نے اسے فرانس کی ‘پیٹھ میں چھرا گھونپنے’ کے مترادف قرار دیا تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی وجہ سے فرانس کے مختلف ممالک کے ساتھ آبدوزوں کے اربوں ڈالر کے معاہدے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔