واشنگٹن: (اے یو ایس ) سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ دوحہ میں ہونے والے سمجھوتے سے قبل کئی برسوں سے لڑائی میں سبقت حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ فوجی معاملات حوصلہ افزا نہیں تھے۔
طالبان مضبوط ہوتے جا رہے تھے اور دوسری جانب امریکہ فوجی کارروائی کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق اور حالات کا بھی تجزیہ کرنے کے بعد آخر کار اس بات کا قائل ہو چکا تھا کہ اس مہنگی ترین لڑائی کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ان خیالات کا اظہار زلمے خلیل زاد نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ ایشیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے اور امریکہ کو اس سے مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔بقول ان کے، اس وقت صورت حال یہ تھی کہ افغانستان اس پیمانے کی دہشت گردی کا مرکز نہیں رہا تھا جیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا۔
صدر ٹرمپ نے مجھ سے کہا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم کسی ایسے معاہدے کے لیے بات چیت شروع کر سکیں جو اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان ہمارے لیے ایسی جگہ نہ بنے جس سے امریکہ کو خطرہ لاحق رہے، بلکہ افغانوں کو بھی ساتھ بٹھایا جائے کہ وہ آپس میں ان باتوں کا کوئی سیاسی حل تلاش کرسکیں جن کا اب ہمیں فوجی حل نظر نہیں آتا۔