نئی دہلی:(اے یو ایس)اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے لے کر معیشت، صحت اور دفاعی شعبوں تک انڈیا اور امریکہ کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ گہرائی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسی لیے یہ شعبے دونوں طاقتور جمہوری ملکوں کے درمیان حال میں ہوئے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بھی توجہ کا مرکز رہے۔اکتوبر کے اواخر میں امریکی عہدے داروں نے اپنے ہندوستانی ہم منصبوں سے بات چیت کے لیے دہلی کا دوروزہ دورہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو اوروزیر دفاع مارک ٹی اِسپَر نے انٹیلی جنس، سلامتی اور فوجی امور پر مرکوز بات چیت کے لیے بالترتیب وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی۔
مذاکرات کے دوران ہندوستان اور امریکہ نے تبادلہ اور تعاون سے متعلق بنیادی تبادلہ اور تعاون معاہدہ (بی ای سی اے )پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ اصل میں ایک عہد بستگی ہے جو دونوں ملکوں کی مسلح افواج کو خفیہ اور عسکری اہمیت کی معلومات کے مزید آزادانہ اشتراک کے لیے با اختیار بناتی ہے۔ خارجہ تعلقات سے متعلق کونسل(جس کا صدر دفتر نیویارک سٹی میں واقع ہے) میں انڈیا ، پاکستان اور جنوبی ایشیا ئی معاملات کی سینئر فیلو الیسا ایئرس اسے ایسا دفاعی معاہدہ قرار دیتی ہیں جس پر مذاکرات برسوں سے جاری تھے۔ وہ کہتی ہیں ”اس معاہدے کی تکمیل نے ہند اور امریکہ دونوں ملکوں کو دفاعی اطلاعات کے مزید تبادلے اور استعمال کی سہولت فراہم کی ہے۔ یہ ایک ایسا ہدف رہا ہے جس کے لیے سلسلہ وار امریکی حکومتیں دو طرفہ بنیاد پر کوشش کرتی رہی ہیں۔“واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں انیشیٹِو آن دی فیوچر آ ف انڈیا اینڈ ساﺅتھ ایشیا کی ڈائرکٹر اپرنا پانڈے کہتی ہیں کہ انڈیا اور امریکہ کے ساتھ چین کے بڑھتے متنازعہ تعلقات کی وجہ سے اس بات چیت میں چین توجہ کا اہم مرکز رہا۔ وہ کہتی ہیں”ٹو پلس ٹو“ مذاکرات ایسے وقت انجام پائے جب چین کاعروج خواہ وہ عالمی سطح پر ہو یا علاقائی سطح پر،پر امن نہیں رہا ہے اوراب وہ اس خطے میں اپنا دبدبہ قائم کرنے اور بین الاقوامی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دے رہا ہے۔
اسی لیے چین کے تئیں امریکی پالیسی تبدیل ہو گئی ہے۔ اسے اب ایک حریف ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لہٰذا خصوصی طور پر اس وزارتی سطح کی بات چیت میں امریکی اور ہندوستانی مفاد ات صرف فلسفیانہ انداز میں ہی نہیں بلکہ چین کی طرف سے در پیش خطرات کا سامنا کرنے میں بھی ہم زماں ہو گئے۔ پانڈے بتاتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تجارت اب 20 بلین ڈالر سالانہ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔ وہ کہتی ہیں ”چین کے ساتھ براعظم اور سمندر کی سطح پرتنازعات کی وجہ سے بھارتی فوج کو جدید سہولیات کی ضرورت ہے۔ اورامریکہ نے انڈیا کو فوجی امداد فراہم کرنے کے ساتھ خفیہ اطلاعات و معلومات کا بھی اشتراک کیا ہے۔ اور اب بی ای سی اے کی وجہ سے یہ امداد نہ صرف جاری رہے گی بلکہ اس میں مزید وسعت آئے گی۔“کوویڈ۔19 نے چونکہ دونوں ملکوں کو کئی طرح سے متاثر کیا ہے ، اس لیے اس وبا نے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ علاج کے طریقوں کے فروغ، ویکسین کی زیادہ تعداد میں تیاری اورکووِڈ۔19 سمیت دیگرمتعدی امراض پر مرکوز تحقیق اور دیگر خطرات سے نمٹنے کے لیے انٹرنیشنل سینٹر آف ایکسیلنس اِن ریسرچ کے ذریعہ یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈزیزیزاور انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے درمیان اشتراک جیسے موضوعات پر مذاکرات کے درمیان غور و خوض ہوا۔
ایئرس کہتی ہیں “یہ ایک خوش آئند بات رہی کہ مذاکرات میں کورونا کی وبا پر صحت سے متعلق تعاون پر زیادہ توجہ دی گئی۔بھارت کے ساتھ تعاون اس لیے بھی نہایت اہم رہے گا کیوں کہ پوری دنیا ویکسین کی تیاری اور علاج کے لیے منظوری کا انتظار کر رہی ہے اور بھارت کی کم لاگت والی پیداوارکی صلاحیت کے بغیر عالمی سطح پر ویکسین اور علاج تک رسائی آسان نہیں ہے۔”مذاکرات کے دوران جہاں سفارت کاری، دفاع اور کورونا کی وبا پر توجہ رہی وہیں دونوں ملکوں کے درمیان فروغ پانے والے اقتصادی تعلقات بھی زیر بحث آئے۔ پانڈے بتاتی ہیں ”اشیا ءاورخدمات کے شعبے میں امریکہ اور بھارت کے درمیان سالانہ تجارت 150 بلین ڈالر ہے اور دونوں ملک چاہیں گے کہ یہ 500 بلین ڈالر تک پہنچ جائے اور ایسے میں جب کہ امریکہ اور اس کے بعض دیگر اتحادی چین سے رخ موڑ نا چاہتے ہیں، ہندوستان میں افرادی قوت کے لیے کام کے دروازے کھلنے والے ہیں جو معاشی اور عسکری دونوں اعتبار سے دونوں ملکوں کے لیے فائدہ کا سودا ثابت ہوگا۔ مذاکرات میں اس پرتفصیلی طور پر تو نہیں، مگر گفتگو ضرور ہوئی۔“ایئرس اس بات سے اتفاق رکھتی ہیں کہ تجارت اور اقتصادیات پر بات چیت زیادہ نہیں ہوئی لیکن مستقبل میں اس پر توجہ دیے جانے کی امید ہے۔ سڑکوں، پلوں اور بندرگاہوں جیسے بنیادی ڈھانچوں کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کی پیش رفت ہمیںآنے والے وقت میں دونوں ملکوں کی مشترکہ ترجیحات کے اشارے دیتی ہے۔ ایئرس لچکدار بنیادی ڈھانچے کی تشکیل کی حمایت اور تصدیق کرنے والی بین الاقوامی پہل، بلیو ڈاٹ نیٹ ورک میں ہونے والی پیش رفت کو اس کی اہم مثال قرار دیتی ہیں۔
پانڈے کسی مخصوص موضوع یا معاہدےسے قطع نظر وزارتی سطح کے اس مذاکرات کی علامتی اہمیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں”ٓخری چار امریکی صدور نے انڈیا کے ساتھ مستحکم تعلقات استوار کرنے کے لیے مستقل طور پر کام کیا ہے۔ یہ تیسرے د و جمع دو مذکرات تھے جو امریکی صدارتی انتخابات سے محض ایک ہفتہ قبل انجام پائے، مگر انتخابات کے دوران کسی فریق نے بھی اس کا حوالہ دینا نہیں چاہا۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں میں دو طرفہ تعلقات پر اتفاق رائے ہے۔ یہی وہ حیثیت ہے جو بہت کم ملکوں کو حاصل ہے اور یہی وہ چیز ہے جو بہت اہمیت کی حامل ہے۔“مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیو یارک سٹی میں رہتے ہیں۔