واشنگٹن:(اے یوایس) امریکا نے چار برسوں میں پہلی مرتبہ اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد بتائی ہے۔ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو راز میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30ستمبر 2020 کو امریکا کے پاس، فعال اور غیر فعال، دونوں قسم کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 3750 تھی، جبکہ 2018 میں یہ تعداد 3785 تھی۔یہ تعداد اس لحاظ سے اہم ہے کہ 1967 کے بعد سے امریکا کے پاس جوہری ہتھیاروں کی یہ سب سے کم تعداد ہے۔
امریکا کے پاس 2003 تک جوہری ہتھیاروں کی تعداد 10000 سے زائد ہوا کرتی تھی جبکہ 1967میں جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اس وقت امریکا کے پاس 31255 جوہری ہتھیار تھے۔امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ریاستوں کے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے حوالے سے شفافیت میں اضافہ ہتھیاروں کی تعداد اور تحدید اسلحہ میں کمی کے لیے کافی اہم ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے 2018کے بعد سے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو راز میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے ان ہتھیاروں کی تعداد بتانے کے سلسلے میں فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے نیوکلیائی انفارمیشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر نے جوہری ہتھیاروں کی تعداد جاری کیے جانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ شفافیت کی جانب واپسی۔ روسی ہتھیاروں کے کنٹرول کے حوالے سے سنجیدہ گفتگو شروع کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران یہ بات چیت سرد بستے میں چلی گئی تھی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے روا ں برس سوئٹزلینڈ میں جب روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ملاقات کی تھی تو اس معاملے پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔صدر بائیڈن کی انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے پالیسی کا بھی جائزہ لے رہی ہے اور امید ہے کہ 2022 کے اوائل میں اسے مکمل کرلیا جائے گا۔اس سال فروری میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے ہتھیاروں کی روک تھام کے حوالے سے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر بائیڈن نے یہ واضح کردیا ہے کہ امریکا اپنی قومی سلامتی کے ساتھ ہی اپنی یہ اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے لاحق خطرات کو کم اور بالآخر بالکل ہی ختم کردیا جائے۔
