US says gunfire from Israeli positions likely killed Shireen Abu Aklehتصویر سوشل میڈیا

واشنگٹن: (اے یو ایس ) امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کے روز ایک بیان میں بتایا ہے کہ امریکی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ‘الجزیرہ’ کے ساتھ کام کرنے والی فلسطینی رپورٹر شیریں ابو عاقلہ کی موت اسرائیلی فوجیوں کے مقام سے فائر ہونے والی گولی سے ہو سکتی ہے۔ محکمہ خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے کہ یہ گولی جان بوجھ کر چلائی گئی تھی۔شیریں ابو عاقلہ رواں برس مئی میں مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک اسرائیلی فورسز کی کارروائی کی کوریج کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہوگئی تھیں۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غیر جانب دار فارنزک معائنے کے بعد امریکی حکام اس گولی کے بارے میں یقینی طور پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے جو شیریں ابو عاقلہ کو لگی تھی۔ان کے بقول بیلسٹک ماہرین کے مطابق یہ گولی بری طرح تباہ ہوچکی تھی اس لیے یہ جاننا کہ اسے کس نے چلایا تھا، ممکن نہیں ہے۔فلسطینی حکام نے شیریں ابو عاقلہ کو لگنے والی گولی گزشتہ ہفتے، مزید تفتیش کے لیے امریکی حکام کے حوالے کی تھی۔ فلسطینی حکام کا مو قف تھا کہ اس تفتیش سے اسرائیل کو دور رکھا جائے۔عرب دنیا میں پہچانے جانی والی شیریں ابو عاقلہ سینئر رپورٹر ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی شہری بھی تھیں۔

فلسطینی عینی شاہدین اور ان کے ساتھ عملے میں موجود افراد کے مطابق انہیں اسرائیلی فوجیوں نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ ان کے مطابق جب ابو عاقلہ کو گولی لگی، اس وقت علاقے میں کوئی فلسطینی عسکریت پسند موجود نہیں تھا۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ ابوعاقلہ اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران ہلاک ہوئیں۔ اسرائیل نے سختی سے تردید کی ہے کہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔اسرائیل نے اقرار کیا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران اسرائیلی فوجی کی گولی کا ابوعاقلہ کو لگنا بعد ازقیاس نہیں ہے۔نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے اسرائیلی اور فلسطینی تفتیش کا معائنہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شیریں ابوعاقلہ کو لگنے والی گولی اسرائیلی فوجیوں کے مقام سے چلائی گئی تھی۔امریکہ کو کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی وجوہات سامنے نہیں آئیں کہ یہ گولی جان بوجھ کر چلائی گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *