واشنگٹن:امریکہ کے 22 ریپبلکن سینیٹرز کے ایک گروپ نے افغانستان میں طالبان پر اور ا س کی حمایت کرنے والی تمام غیر ملکی حکومتوں پر پابندی لگانے کا بل پیش کیا۔ ‘افغانستان کاو¿نٹر ٹیررازم ، اوورسائٹ اینڈ اکاو¿نٹیبلٹی ایکٹ’ (افغانستان کے انسداد دہشت گردی ، نگرانی اور احتساب ایکٹ ) کو سینیٹر جم رِش نے پیش کیا۔ بل میں 2001-2020 کے درمیان طالبان کو حمایت دینے میں پاکستان کے کردار پر ، جس کی وجہ سے افغانستان کی حکومت گری، ساتھ ہی وادی پنجشیر اور افغان مزاحمت کے خلاف طالبان کے حملے میں پاکستان کی حمایت کے بارے میں وزیر خارجہ سے رپورٹ بھی پیش کرنے کہا گیاہے ۔
جم رِش نے سینیٹ میں بل پیش کرنے کے بعد کہا کہ ہم افغانستان سے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی بے تریب واپسی کے سنگین مضمرات پر غور کرنا جاری رکھیں گے۔ نہ جانے کتنے ہی امریکی شہریوں اور افغان اتحادیوں کو افغانستان میں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا۔ ہم امریکہ کے خلاف ایک نئے دہشت گردانہ خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہیں، طالبان افغان لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے غلط طریقے سے شناخت چاہتا ہے۔بل میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے، طالبان کی جانب سے قبضہ کئے گئے امریکی آلات کے نمٹان، افغانستان میں طالبان اور دہشت گردی پھیلانے کے لئے موجود دیگر گروپوں پر پابندی اوراسمگلنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے حکمت عملی کی ضرورت کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔اس میں طالبان اور ان تمام غیر ملکی حکومتوں پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو تنظیم کی حمایت کرتی ہیں۔
دریں اثنا ، ایک اعلیٰ امریکی فوجی جنرل نے کہا کہ افغانستان پر حکومت کر رہا طالبان 2020 کے دوحہ معاہدے کا احترام کرنے میں ناکام رہا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم القاعدہ سے ابھی تک الگ نہیں ہوئی ہے۔ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ دوحہ معاہدے کے تحت امریکہ کو اپنی افواج کا انخلا شروع کرنا تھا ، جس سے طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان ایک سیاسی معاہدہ ہو پائے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدہ کے تحت طالبان کو سات شرائط اور امریکہ کو 8 شرائط پوری کرنی تھی۔ ملی نے کہا کہ طالبان نے امریکی افواج پر حملہ نہیں کیا ، جو کہ ایک شرط تھی ، لیکن وہ دوحہ معاہدے کے تحت کسی بھی دوسری شرائط کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔وہیں، شاید امریکی قومی سلامتی کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ طالبان نے کبھی القاعدہ سے علیحدگی اختیار نہیں کی اور ان سے اپنے تعلقات نہیںتوڑے۔
افسر نے کہا کہ وہیں دوسری جانب امریکہ نے اپنی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے۔ یہ واضح ہے کہ افغانستان کی جنگ ان شرائط پر ختم نہیں ہوئی ، جن پر امریکہ چاہتا تھا۔ امریکہ کی جانب سے یکم مئی کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا شروع کر دینے کے بعد طالبان نے ملک کے کئی حصوں پر قبضہ کر نا شروع کر دیا تھااور 15 اگست کو اس نے کابل کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ ملی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ القاعدہ افغانستان میں ہے اور وہ دوبارہ اکٹھے ہونا چاہتے ہیں۔
