واشنگٹن(اے یو ایس )امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کے روز باورکرایا ہے کہ اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے کے منصوبے کے بعد امریکا اسرائیل کی فوجی امداد میں کمی کرے گا اور نہ ہی امدادی پروگرام بند کیا جائے گا۔خیال رہے کہ اسرائیل میں منظور ہونے والے عدالتی اصلاحات کے متنازع قانون پر امریکا کو بھی اعتراضات ہیں جب کہ اسرائیل میں اپوزیشن قوتیں اس قانون کو عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک قرار دیتی ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ “فوجی امداد میں کوئی کمی یا بندش نہیں کی جائے گی، کیونکہ اسرائیل سے ہماری وابستگی اور اسرائیل کی سلامتی کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے۔”یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل میں مزید ہڑتالوں اور مظاہروں کی تیاری ہو رہی ہے۔
منگل کو اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے متنازع عدالتی اصلاحات کے منصوبے میں ایک اہم شق کو منسوخ کرانےکے لیے سپریم کورٹ میں اپیلیں جمع کرائی گئی تھیں۔بینجمن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی جانب سے پیر کو کنیسٹ کی طرف سے منظور شدہ “معقولیت کی شق” پر اصرار، قانونی چیلنجوں اور سڑکوں پر تصادم کا باعث بنا۔مظاہروں کے منتظمین نے نئے مظاہروں کا بھی اعلان کیا جو منگل کی شام تل ابیب، حیفا، یروشلم اور دیگر مقامات پر شروع ہوئے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ “معقولیت کا نظریہ” قانون عدلیہ کو حکومتی فیصلوں کو مسترد کرنے کا قانونی اور انتظامی اختیار فراہم کرتا ہے۔ چاہے وہ وزارتوں اور دیگر سے سول سروسزمیں تقرریوں کے حوالے سے ہو یا دوسرے عوامی فیصلے جو عوامی مفاد سے متصادم ہوں۔اس قانون کے خاتمے کا مطلب حکومتی فیصلوں، خاص طور پر وزرائ ، ان کے نائبین اور دیگر کی تقرریوں میں مداخلت کرنے میں سپریم کورٹ کے کردار کو ختم کرنا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس متن کی حمایت پارلیمنٹ میں 120 میں سے بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں حکمران حکومتی اتحاد کے 64 ارکان نے ووٹ دیا۔ اپوزیشن کے اراکین نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا اور اس نے قانون کی منظوری کی بڑے پیمانے پر مذمت کی۔