کیف:(اے یو ایس)روس کی جانب سے یوکرین کے ڈونیسک اور لوہانسک کے روسی مقبوضہ علاقوں کی آزادی کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن روس پر مزید پابندیاں لگانے جا رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ روس کی جانب سے اس اقدام کی توقع کر رہے تھے اور اس پر فوری طور پر ردعمل دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن ان علاقوں میں امریکی شہریوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری اور تجارت پر مکمل پابندی عائد کر دیں گے۔
پوتین کی جانب سے اس اعلان کے بعد مغربی ممالک کا خدشہ مزید گہرا ہو گیا ہے کہ پوٹن نے یوکرین پر حملے کا مصمم ارادہ بنا لیا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے سینئیر عہدے دار کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے حملے کا بہت حد تک خطرہ ہے۔سینئر عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے چند گھنٹوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ روس نے ان علاقوں میں امن قائم کرنے کے بہانے سے اپنی افواج تعینات کی ہیں۔عہدے دار کا کہنا تھا کہ یہ تقریر روس کی سلامتی کے لیے نہیں بلکہ یوکرین کی سالمیت اور اس کی آزادی پر حملے کے مترادف تھی۔امریکی عہدے دار کے بقول پوتین نے واضح کیا تھا کہ ہ وہ یوکرین کو تاریخی طور پر روس کا حصہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے یوکرین کے ساتھ تنازع کے بارے میں کئی ایسے دعوے کیے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوجی اقدام کا جواز تلاش کر رہے ہیں۔ یہ تقریر روسی عوام کے سامنے جنگ کو جواز پیش کرنے کے لیے تھی۔ان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاو¿س ایک دو روز میں روس پر مزید پابندیاں عائد کرے گا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق روس کا اقدام بین الاقوامی قوانین، یوکرین کی سالمیت اور علاقائی سلامتی کی خلاف ورزی ہے، ساتھ ہی روس کی جانب سے کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے اس بارے میں معلومات نہیں دیں کہ آیا امریکی سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لارووف کے درمیان اس ہفتے کے اختتام پر ہونے والی شیڈول ملاقات ہو سکے گی یا نہیں۔ یہ ملاقات پوٹن بائیڈن ملاقات کی پیش بندی کے طور پر دیکھی جا رہی تھی۔ پیر کو روسی صدر کے اس اعلان کے بعد واشنگٹن اور یورپی یونین نے روس پر معاشی پابندیوں کا اعلان کیا۔
یورپی یونین کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیئر لاین اور کونسل کے صدر چارلس مشیل نے پوتین کی جانب سے ان علاقوں کی آزادی کو تسلیم کرنے کے اعلان کو بین الاقومی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔اس سے پہلے کریملن کے مطابق پوٹن نے فرانس اور جرمنی کے رہنماو¿ں کو پیر کو اپنے اس فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے اس کے بعد دستاویز پر دستخط کر کے اعلان کیا تھا کہ یہ علاقے اب یوکرین کا حصہ نہیں ہیں۔پوٹن نے پیر کو کریملن سے روس کے عوام سے ایک طویل خطاب کیا جس میں انہوں نے یورپ میں ملکوں کی سرحدوں اور نوے کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ یوکرین کبھی بھی ایک قوم نہیں تھی اور تاریخی طور پر روس کا حصہ تھا۔یاد رہے کہ پوتین نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوج بیلاروس اور یوکرین کے شمال، مشرق اور جنوب کی سرحد پر تعینات کر رکھی ہے۔
