واشنگٹن: افغانستان مصالحت کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ چونکہ امریکہ طالبان کے خلاف جنگ ہار رہا تھا اس لیے اس نے امن مذاکرات کو ہی بہتر متبادل کے طور پر منتخب کیا۔ سابق خصوصی ایلچی نے سی بی ایس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج نے میدان جنگ میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی بارہا کوششیں کیں لیکن اس میں اسے ناکامی ہی ہاتھ لگی۔ اور یہ مذاکرات اسی نقطہ نظر کی بنیاد پر تھے کہ ہم جنگ نہیں جیت پا رہے نیز وقت ہمارا ساتھ نہیں دے رہا اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ جتنا جلد ہو سکے کوئی معاہدہ کر لیا جائے۔
خلیل زاد نے افغانستان کے سلامتی سیکٹر کا شیرازہ بکھیرنے اور اس میں انتشار پھیلانے کے لیے اس وقت کے صدر اشرف غنی کو ذمہ دار ٹہرایا کہ اس کے فرار سے افغان دارالخلافہ میں افرا تفری پھیلی۔خلیل زاد نے افغانستان میں یا پڑوسی ملک میں القاعدہ رہنما کی موجودگی کے بارے میں بھی بات کی۔خلیل زاد کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری افغانستان یا افغانستان کے پڑوس میں ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ طالبان کو اس کا علم ہے یا نہیں۔ طالبان نے ، جن کے ساتھ میرا معاہدہ ہوا، نے مجھے بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ القاعدہ کا رہنما کہاں ہے۔ خلیل زاد نے افغانستان اور امریکہ کے درمیان بداعتمادی کے ماحول کی اطلاع دی اور کہا کہ واشنگٹن سرحدوں کے باہر سے دہشت گردی سے لڑنے کے باوجود طالبان کی کارروائیوں کا جائزہ لے رہا ہے۔
خلیل زاد نے مزید کہا کہ ہم سرحدوں کے باہر سے دہشت گردی سے لڑنے کے طالبان کے عزم کی نگرانی کر رہے ہیں ، اور اگر ہم دہشت گردانہ سرگرمیوں کی منصوبہ بندی سے آگاہ ہیں تو ہم حملے کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان میں القاعدہ کے ارکان کے بارے میں الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔مجاہد نے کہا کہ میں ایسا خطرہ نہیں دیکھتا ، اور یہاں کوئی نہیں ہے ، اور ہمیں ایسی کوئی معلومات موصول نہیں ہوئی جو اس سطح پر ہوں۔ خلیل زاد نے یہ ریمارکس القاعدہ سے تعلقات منقطع کرتے ہوئے کہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا، اور خواتین کو تعلیم اور کام کی اجازت دینا امارت اسلامیہ کے سنجیدہ وعدے ہیں جو اس نے دنیا بھر سے کیے ہیں۔
