واشنگٹن:امریکہ کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان میں فوجی موجودگی کے بغیر ہی دہشت گردوں کو ڈرون حملوں سے نشانہ بنا سکتا ہے۔امریکہ کے نائب وزیر دفاع برائے پالیسی کولن ایچ کائل نے مزید کہا کہ ان کا ملک اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے افغانستان میں فوجی موجودگی کے بغیر بھی دہشت گردوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے نائب ترجمان کولن کال نے کہا کہ ان کے خیال میں اس حملہ نے ،جو دس روز قبل القاعدہ نیٹ ورک کے سربراہ اور دنیا کے نہایت خونخوار دہشت گرد ایمن الظواہری کے خلاف کیا گیا تھا، نہ صرف القاعدہ بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کو دکھادیا کہ اگر امریکہ کے قومی مفادات کو کسی قسم کا خطرہ ہوا تو، افغانستان میں فوجی موجودگی کے بغیر، ہم دہشت گردوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
تاہم افغانستان میں غیر ملکی افواج کے سابق کمانڈر انچیف افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکا کو قرار دیا۔افغانستان میں ناٹو اور امریکی افواج کے سابق کمانڈر ڈیوڈ پیٹریاس نے کہا کہ افغانستان کے حالات کو سنبھالنے کے لیے ایک مستقل عزم کی ضرورت تھی اور ملک اور اس کے لوگوں کو طالبان کے حوالے کرنے سے بہتر تھا کہ فغانستان کے حالات سنبھالنے کی کوشش جاری رکھنے کے لیے وہاں فوجی موجودگی برقرار رکھی جاتی ایسا کر کر کے امریکہ افغانستان میں حالات کو سنبھال سکتا تھا اور حکومت کو گرنے سے بھی بچا سکتا تھا۔
دوسری جانب نائب وزیر خارجہ اسلامی امارت شیر محمد عباس اسٹانک زئی نے موجودہ افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے مغربی ملکوں کو ہدف تنقید بنایا۔ اسی دوران بین الاقوامی تعلقات کے ماہر میر واعظ آشفتہ نے کہا کہ امریکہ نے سابق حکومت کے چوروں لٹیروں پر بھروسہ کیا اور انہیں اقتدار تک پہنچایا، لیکن اس کے بعد اس نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا اپنا نصب العین بھی ترک کر دیا اور افغانستان کو بدترین صورت حال سے دوچار کر کے بھاگ کھڑا ہوا ۔ا ستانکزئی نے مزید کہا کہ افغانستان کو ثقافت کے شعبے سے لے کر تعلیم کے شعبے تک ہزاروں چیلنجز درپیش ہیں۔اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ کابل میں القاعدہ رہنما کی موجودگی اور قتل دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور یہ مسئلہ عالمی برادری کو امارت اسلامیہ کے وعدوں پر عدم اعتماد کا باعث بنے گا۔