کابل:(اے یو ایس ) افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے طالبات کی جامعات میں تعلیم پرپابندی کے فیصلے خلاف طلبا کے احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔طالبان عناصر کے ہاتھوں نہتے طلبا پر بدترین تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلح طالبان اہلکار ایک طالب علم کے چہرے پرلاتیں مار رہا ہے۔یہ واقعہ قندھار میں پیش آیا جہاں طالبان اہلکاروں نے لڑکیوں کے تعلیم پر پابندی کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والے طالب علموں کے ایک گروپ پر فائرنگ کی۔
ایک ویڈیو کلپ میں قندھار کی (میرویس نائیکی) یونیورسٹی کے طلبا کی طرف ہوا میں گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، جب وہ لڑکیوں کے خلاف حکام کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے امتحانی ہالوں سے باہر بھاگے تھے۔شدت پسند تحریک کے ایک رکن نے ایک افغانی نوجوان کو بھی تشدد سے مارا پیٹا اور اس کے چہرے اور پورے جسم پر لاتیں ماریں۔گذشتہ منگل کو طالبان نے افغانستان میں لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پرتا اطلاع ثانی پابندی لگا دی۔اب بچیاں صرف پرائمری جماعتوں تک اسکول جا سکتی ہیں۔طالبان کے اس فیصلے پر بین الاقوامی غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے طالبان کے ہاتھوں افغان خواتین کے جبر کی مذمت کی۔
اندرون ملک طالبان کے اس فیصلے کو مسترد کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے، جس سے تحریک نے خواتین کو پانی کی بوچھاروں اور لاٹھیوں سے تشدد کرکے انہیں منتشر کردیا۔لڑکیوں اور خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم پر پابندی تین ماہ سے بھی کم وقت کے بعد لگائی گئی ہے جب ان میں سے ہزاروں افراد نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ کا امتحان دیا تھا۔طالبان کی تحریک نے آزادیوں پر پابندیاں بڑھا دی ہیں خاص طور پر خواتین کے خلاف جنہیں آہستہ آہستہ عوامی زندگی سے خارج کر دیا گیا ہے اور ثانوی اسکولوں سے باہر کر دیا گیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ طالبان تحریک نے 15 اگست 2021 کو ملک سے امریکا اور ناٹو افواج کے انخلا کے موقع پر افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔