اقوام متحدہ(اے یوایس )اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کی ایک ٹیم نے منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ میانمار کی فوج کے جنگی جرائم بشمول شہریوں پر بمباری کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔انڈیپنڈنٹ تحقیقات برائے میانمار (آئی آئی ایم ایم) کی رپورٹ، جو جولائی 2022 اور جون 2023 کے درمیانی عرصے کا احاطہ کرتی ہے، میں کہا گیا ہے کہ “اس بات کے پختہ شواہد موجود ہیں کہ میانمار کی فوج اور اس کی معاون ملیشیا کثرت اور ڈھٹائی میں اضافے کے ساتھ تین اقسام کے جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہیں۔”اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان جرائم میں بموں کے ساتھ شہریوں کو بلا امتیاز یا غیر متناسب نشانہ بنانا اور شہریوں کے گھروں اور عمارتوں کو نذر آتش کرنا شامل ہے جس کے نتیجے میں بعض اوقات پورے کے پورے گاؤں تباہ ہو جاتے ہیں۔رپورٹ میں “کارروائیوں کے دوران حراست میں لیے گئے شہریوں یا جنگجوؤں کے قتل” کا بھی حوالہ دیا گیا۔
آئی آئی ایم ایم کے سربراہ نکولس کومجیان نے کہا، “ہمارے شواہد ملک میں بڑے پیمانے پر اور منظم حملوں میں ڈرامائی اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں عام شہریوں کے خلاف جنگی اور انسانیت سوز جرائم شامل ہیں اور ہم ایسے کیس فائلیں بنا رہے ہیں جنہیں انفرادی مجرموں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے عدالتیں استعمال کر سکتی ہیں۔”دو سال قبل جب سے ایک جنتا نے اقتدار پر قبضہ کیا، میانمار افراتفری میں گھرا ہوا ہے اور ایک مزاحمتی تحریک متعدد محاذوں پر فوج کے خلاف لڑ رہی ہے جس میں مخالفین کے خلاف خونریز کریک ڈاو¿ن کے بعد مغربی ممالک نے ملک پر دوبارہ پابندیاں عائد کیں۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کی اطلاعات پر تبصرہ کرنے کے لیے جنتا کے ترجمان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔جنتا نے پہلے ہی یہ کہہ کر مظالم کی تردید کی کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف ایک جائز مہم چلا رہی ہے۔اقوام متحدہ کے تفتیش کار کہتے ہیں کہ میانمار کی فوج کو “معلوم ہوتا یا ہونا چاہیے تھا” کہ جب حملے ہوئے تو بڑی تعداد میں شہری مبینہ اہداف میں یا اس کے اردگرد موجود تھے، اگرچہ بم دھماکوں کو فوجی اہداف کے خلاف حملوں کے طور پر جائز قرار دیا گیا ہے۔