لندن ،(اے یو ایس) برطانوی ذرائع کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی انتظامیہ برطانیہ پر سفارتی دباو¿ ڈال رہی ہے تاکہ اسے باضابطہ طور پر ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے سے روکا جا سکے۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق برطانوی وزارت داخلہ نے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قراردینے کی حمایت کی ہے۔
برطانوی حکومت کے اندرونی ذرائع کے مطابق اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ برطانیہ تہران کے ساتھ ایک مذاکرات کار کے طور پر اہم کردار ادا کر سکتا ہے جو کہ اگر اس نے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کیا تو اسے نقصان پہنچے گا۔یہی دلیل برطانوی دفتر خارجہ کی طرف سے برطانوی ہوم آفس کی جانب سے پاسداران انقلاب پر پابندی لگانے اور انہیں دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی تجویز کی مخالفت کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔یہ ایک ایسی پوزیشن ہے جو اس حقیقت سے متصادم ہے کہ امریکی انتظامیہ پہلے ہی پاسداران انقلاب پر پابندی لگا چکی ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا تھا ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاو¿س بہ طور صدر موجود تھے۔رپورٹ کے مطابق پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے سے اسے اجلاسوں میں شرکت، عوامی مقامات پر اس کا لوگو اٹھانے یا اس کی سرگرمیوں کی حمایت کی حوصلہ افزائی سے روکا جائے گا، کیونکہ یہ کارروائیاں ایک مجرمانہ جرم تصور کی جائیں گی۔
پاسداران انقلاب پر پابندی لگانے کی مہم برطانوی حکومت کے اندر لڑائی کی وجہ سے رکاوٹ بنی کیونکہ ہوم آفس حکومت کے اندر پابندی لگانے کے لیے دباو¿ ڈال رہا تھا۔ایم آئی 5 کے ڈائریکٹر جنرل کین میک کیلم نے نومبر میں ایک غیر معمولی عوامی خطاب میں کہا تھا کہ 2022 میں برطانوی باشندوں کو اغوا یا قتل کرنے کے 10 ایرانی منصوبے بنائے گئے تھے۔لیکن دفتر خارجہ جہاں جیمز کلیورلی سیکرٹری خارجہ کے طور پر کام کرتے ہیں نے یہ قدم اٹھانے کے خلاف خبردار کیا اور سوال کیا کہ کیا اس سے مطلوبہ اہداف حاصل ہوں گے۔رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اٹھائے گئے نکات میں سے ایک یہ ہے کہ پابندیاں عموماً ایسے گروپوں کے خلاف لگائی جاتی ہیں جو ایران کے پاسداران انقلاب کے برعکس ہدف بنائے گئے ریاستی آلات کا مرکزی حصہ نہیں ہیں۔