صنعا:(اے یو ایس ) امریکہ کے ایک سینیئر سفارت کار نے کہا ہے کہ امریکہ نے یمن اور ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کو مزید حملوں سے باز رکھنے اور ان سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو مناسب اسلحہ بہم پہنچا دیا ہے۔ سینیئر سفارت کار ٹم لِنڈرکنگ نے ، جو یمن کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی بھی ہیں ،بلومبرگ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن نے یمن سے ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے مزید حملوں کی روک تھام کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ”مناسب فوجی سازوسامان“ مہیاکیا ہے۔واشنگٹن اوراس کے خلیجی اتحادیوں خاص طور پرسعودی عرب اور یواے ای کے درمیان تعلقات میں بائیڈن انتظامیہ کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے سردمہری آئی ہے اورامریکی انتظامیہ ان تعلقات کوم دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔البتہ سینیرسفارت کار ٹم لِنڈرکنگ نے مزید بتایا کہ”امریکا نے دونوں ملکوں کودفاع کی پختہ یقین دہانی کرائی ہے اورانھیں مناسب دفاعی سازوسامان فروخت کیا گیا ہے ۔
امریکا کے اقدامات کو”خطے کے لیے بہت پختہ اور مثبت“ قراردیتے ہوئے ٹِم لِنڈرکنگ نے کہا:”میں سمجھتا ہوں کہ یمن کے بارے میں یہ اقدام یقینی طورپرسعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ امریکی تعلقات کو مزید مضبوط کرتا ہے اور یہ ایک اہم جہت ہے“۔وہ حال ہی میں خطے کے دورے پرتھے اورانھوں نے یمن کے متحارب دھڑوں کے درمیان امن مذاکرات میں حصہ لیا تھا جس کے نتیجے میں طرفین کے درمیان دو ماہ کی جنگ بندی ہوئی ہے۔واضح رہے کہ امریکی صدرجوبائیڈن نے خود منصب سنبھالنے کے بعد اور ان کے اعلیٰ حکام نے باربار سعودی عرب کو”اچھوتی“ریاست قراردیا ہے،انھوں نے حوثیوں کوامریکا کی دہشت گردی کی بلیک لسٹ سے ہٹا دیا اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت منجمد کر دی تھی۔
حال ہی میں صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ حوثیوں کو دوبارہ دہشت گرد تنظیم قراردینے پر غورکررہے ہیں۔انھوں نے یہ بیان حوثی ملیشیا کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پرحالیہ میزائل اور ڈرون حملوں کے بعد دیا تھا۔ایران کے حمایت یافتہ اس گروپ نے سعودی عرب میں شہری اہداف اورسعودی آرامکو کی تنصیبات پراپنے میزائل اور ڈرون حملوں کو تیز کردیا ہے۔حالیہ مہینوں میں امریکی صدر نے اعلیٰ حکام کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات روانہ کیا ہے اور امریکا اور یورپ بھر میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے دونوں ملکوں سے تیل کی پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔لیکن دونوں خلیجی ممالک نے ان مطالبات کو مسترد کردیا ہے اوراوپیک پلس میں شامل تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان طے شدہ معاہدوں کی پاسداری کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
