کابل: صدر افغانستان اشرف غنی نے قومی اسمبلی کے ایک مشترکہ خصوصی اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں امن قائم کرنے کی ہم نے بھاری قمیت چکائی لیکن ہم پھر بھی جنگ سے دوچار ہیں۔ صدر غنی نے بالواسطہ طور پر امن عمل کے آغاز میں حکومت افغانستان کے ذریعہ 5000طالبان قیدیوں کی رہائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے نہ صرف بھاری قیمت چکائی بلکہ نہایت شرافت کا مظاہرہ بھی کیا لیکن پھ بھی احسان کا بدلہ احسان سے چکانے کے بجائے ہم پر جنگ تھوپ دی گئی۔
غنی نے مزید کہا کہ ہم پر ایک غیر ملکی اور عاجلانہ عمل تھوپ دیا گیا جو قیام امن ے بجائے باغی گروپ کو قانونی حیثیت دینے پر منطبق ہوا۔ انہوں نے کہا طالبان میں بلا شبہ تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ آئی ہے کہ وہ اب پہلے سے زیادہ ظالم ہو گئے ہیں اور ان کے مظالم بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ یہ موقع ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرانے کا نہیں ہے ۔ ہم سبھی ایک سخت آزمائشی دور سے گذر رہے ہیں۔
غنی نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال بین الاقوامی فوجوں کی واپسی کے اچانک فیصلہ کی دین ہے لیکن عوام کے تحفظ ہمارا فرض ہے۔انہوں نے قوم کو یقین دہانی کرائی کہ افغان حکومت نے سلامتی کا جو منسوبہ تیار کیا ہے اس سے آئندہ چھ ماہ میں صورت حال میں تبدیلی واقع ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ فوج جنگی نوعیت سے اہم مقامات کی اور پولس شہروں کا دفاع کر رہی ہے۔