سہیل انجم
سرزمین پاکستان نے متعدد شخصیات کے جنازے دیکھے ہیں۔ جن میں قائد اعظم محمد علی جناح، فاطمہ جناح، صدر ایوب خاں، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاءالحق اور بے نظیر بھٹو اور اسی کے ساتھ متعدد مذہبی و سماجی شخصیات کے جنازے شامل ہیں۔ لیکن گزشتہ ہفتے یعنی 21 نومبر کو جو جلوس جنازہ نکلا ہے وہ پاکستان کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا جلوس جنازہ تھا۔ بلکہ بعض میڈیا رپورٹوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلوس جنازہ تھا۔ کچھ لوگوں نے اس میں دس پندرہ، کچھ نے بیس پچیس اور کچھ نے تیس چالیس لاکھ افراد کی شرکت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ جنازہ تھا ایک سخت گیر مذہبی عالم دین علامہ خادم حسین رضوی کا۔ وہ تحریک لبیک پاکستان کے بانی صدر تھے اور انھوں نے زیادہ سے زیادہ دس برسوں میں اتنی مذہبی و سیاسی قوت حاصل کر لی تھی کہ جب چاہتے حکومت وقت کو اپنے گھٹنوں پر جھکا سکتے تھے۔
حالیہ دنوں میں جب فرانس میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کا معاملہ اٹھا اور وہاں کے صدر نے اظہار خیال کی آزادی کے نام پر ان خاکوں کی حمایت کی تو علامہ خادم حسین رضوی نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ انھوں نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکراں کا سر قلم کرنے کی بات کہی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے۔ فرانس سے تمام قسم کے تعلقات منقطع کرے اور فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کا سرکاری اعلان کرے۔ لیکن جب حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو انھوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان واقع شاہراہ فیض آباد پر دھرنے کا اعلان کر دیا۔ وہ اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ دھرنا گاہ پہنچے اور دو روز تک دھرنا جاری رہا۔ لیکن بہر حال حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ ہو جانے کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا۔ یہ 16 نومبر کی بات ہے۔ لیکن اچانک 19 نومبر کی شام کو علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال کی خبر آگئی۔ ملک کا کوئی بھی شہری اس وقت ان کے انتقال کی خبر سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ لہٰذا جب یہ خبر آئی تو پورے ملک پر سکتہ سا طاری ہو گیا اور ہر شخص یہ جاننے کے لیے بے چین ہو گیا کہ آخر علامہ کو کیا ہو گیا تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ ان کو کئی روز سے بخار تھا اور انھیں سانس لینے میں دشواری تھی۔ بہر حال 19 کو انتقال ہوا اور 21 کو لاہور کے مینار پاکستان گراونڈ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔
علامہ خادم حسین رضوی کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ وہ ابھی 55 سال کے تھے۔ 2006 میں ایک سڑک حادثے میں ان کو شدید چوٹیں آئی تھیں جس کے نتیجے میں وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے۔ لہٰذا وہ وھیل چیئر تک محدود ہو گئے تھے۔ وہ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کے متنازع بلاسفیمی قانون یا توہین مذہب قانون کے سخت حامی تھے۔ وہ اس میں ترمیم کے خلاف تھے اور اگر کوئی اس میں ترمیم کی بات کرتا تو وہ اس کے خلاف سینہ سپر ہو جاتے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ ناموس رسالت کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ پہلے محکمہ اوقاف میں امام تھے۔ لیکن جب وہ توہین مذہب قانون کے حق میں بہت زیادہ بولنے لگے تو انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک مذہبی تنظیم ”تحریک لبیک یا رسول اللہ“ بنائی اور اس کے تحت پورے ملک کا دورہ کرکے توہین مذہب کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں انھوں نے اس تنظیم کا نام بدل کر ”تحریک لبیک پاکستان“ رکھ دیا اور اسے ایک سیاسی جماعت بنا دیا۔ 2018 میں انھوں نے اس کے پلیٹ فارم سے الیکشن بھی لڑا اور ان کی جماعت پانچویں بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھری۔ جس پر لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی تھی۔وہ اس وقت سرخیوں میں آئے جب 2011 میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے ہی محافظ ممتاز قادری نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ سلمان تاثیر توہین مذہب قانون میں ترمیم کے حامی تھے اور توہین مذہب کے الزام میں جیل میں بند ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی حمایت کر رہے تھے۔ آسیہ بی بی پر جو الزام تھا کہا جاتا ہے کہ وہ متنازع تھا۔ بہت سے لوگ اس الزام کی صداقت کو مشکوک سمجھتے تھے۔ بہر حال جب ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو گولی مار دی تو علامہ خادم حسین رضوی نے قادری کی حمایت کی اور اسے غازی کا لقب دیا۔ انھوں نے قادری کو معاف کر دینے کا مطالبہ کیا۔ مگر اس کے خلاف کیس چلا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ اس پر خادم حسین رضوی نے پھر قادری کی حمایت کی اور اسے شہید کا درجہ دے دیا۔
بریلوی مکتب فکر کے مسلمانو ںکی بہت بڑی تعداد نے ان کے موقف کی تائید کی۔ جہاں تک توہین مذہب قانون کی بات ہے جس کی وجہ سے علامہ سرخیوں میں آئے، وہ کافی متنازع قانون ہے۔ ایسی رپورٹیں پاکستانی میڈیا میں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ توہین مذہب قانون کا غلط اور بے بنیاد استعمال بھی ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے مخالفین اور بالخصوص مذہبی اقلیتوں سے ذاتی رنجش کی وجہ سے بھی یہ الزام عاید کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ایسی بھی خبریں آئی ہیں کہ کسی نے خود ہی قرآن مجید کے اوراق کی بے حرمتی کی اور پھر اس کا الزام دوسروں پر لگا دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملزم کے خلاف تو کارروائی ہوتی ہے لیکن الزام لگانے والا صاف بچ کر نکل جاتا ہے۔بہر حال رفتہ رفتہ ان کی مقبولیت بڑھنے لگی تھی۔ جب بھی وہ حکومت سے کوئی مطالبہ کرتے اور وہ تسلیم نہیں کیا جاتا تو وہ حکومت کے خلاف دھرنے پر بیٹھ جاتے۔ وہ تحریک ختم نبوت سے بھی منسلک رہے ہیں۔ وہ ایک انتہائی پرجوش مقرر تھے اور ان کے عقیدت مندوں کا بہت بڑا حلقہ بن گیا تھا۔ ان کا انداز بیان کافی سخت تھا۔ وہ اپنی تقریروں میں انتہائی نازیبا کلمات کا بھی استعمال کرتے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق بعض ایسے ناشائستہ جملوں کو بھی جو گالیوں میں شمار ہوتے ہیں وہ منبر سے کی جانے والی تقریروں میں بھی استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا ان کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہو گیا۔ لیکن جب میڈیا میں ان کو زیادہ کوریج نہیں ملی تو انھوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور کئی زبانوں میں ان کی ویب سائٹ بھی بنائی گئی۔ سوشل میڈیا پر ان کے کئی اکاؤنٹ بھی بنے۔ وہ خود کو پیغمبر اسلام کا ”چوکیدار“ کہتے تھے۔اب تک پاکستان میں یا تو دیوبندی مکتب فکر کے عالموں کو مقبولیت حاصل رہی ہے یا پھر اہلحدیث مکتب فکر کے عالموں کو۔ بریلوی مکتب فکر کے علما کو ویسی مقبولیت نہیں ملی تھی۔ غالباً علامہ رضوی پہلے بریلوی عالم دین تھے جن کا اتنا بڑاحلقہ بن گیا تھا۔
طالبان دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید اہلحدیث مکتب فکر سے۔ اسلامک اسٹیٹ میں بھی زیادہ تر طالبان ہیں یا پھر حافظ سعید کے نظریات کو ماننے والے ہیں۔ طالبان پر بھی دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام ہے اور حافظ سعید اور ان کے حامیوں پر بھی۔ طالبان کے بعض اہم ذمہ داروں کے مراسم فوجی افسران سے بھی رہے ہیں اور ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کے پس پشت فوج کا دماغ کارفرما ہے۔ بالخصوص جنرل ضیاءالحق نے مذہبی شدت پسندی کو کافی ہوا دی تھی۔ لیکن بریلوی مکتب فکر پر دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں ہے۔ البتہ خادم حسین رضوی کے بھی فوج سے بھی گہرے مراسم رہے ہیں۔ اس سے قبل ان کے بعض دھرنوں کو فوج کی مداخلت سے ہی ختم کرایا گیا تھا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باجود علامہ خادم حسین رضوی پر مذہبی شدت پسندی میں اضافے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اب ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک پاکستان کا صدر نامزد کر دیا گیا ہے۔ بہت سے تجزیہ کار اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا اب جبکہ وہ اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں پاکستان میں مذہبی شدت پسندی میں کوئی کمی آئے گی یا ان کے بیٹے سعد رضوی جنھیں ان کا جا نشین بنایا گیا ہے ان کی روایت اور وراثت کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو ںگے۔ بہر حال علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال سے پاکستان میں سخت گیر مذہبی سرگرمیوں کا ایک باب بند ہو گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد تحریک لبیک پاکستان کا کیا مستقبل ہوتا ہے اور کیا وہ جماعت علامہ خادم حسین رضوی کے مذہبی نظریات کو اسی مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھانے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں۔
sanjumdelhi@gmail.com