سہیل انجم
کسی بھی تحریک کو چلانے کے لیے کئی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ سب سے پہلے تو تحریک کے تئیں خلوص اور اسے پوری قوت کے ساتھ چلانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ تحریک کے لیے افرادی قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ بہت سی تحریکیں انسانی جانوں کا نذرانہ بھی لیتی ہیں۔ اگر کسی مہم میں دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں تو ان کی جگہ پُر کرنے کے لیے کم از کم بیس افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے مالی وسائل بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ تحریک میں شامل افراد اور ان کے اہل خانہ کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے پیسے چاہیے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس محاذ پر بھی ایک جدوجہد چلتی ہے۔ یعنی وسائل کی فراہمی کی جد و جہد۔ لیکن اگر کہیں جنگ ہو رہی ہے تو پھر مذکورہ چیزوں کی ضرورت تحریکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ پڑتی ہے۔ اور اگر جنگ دو ایسے فریقوں میں ہو رہی ہو جو ایک دوسرے کے مساوی قوت کے مالک نہ ہوں بلکہ ایک فریق بہت بڑی طاقت رکھتا ہو اور دوسرا فریق اس کے مقابلے میں کم طاقت کا حامل ہو تو پھر دوسرے فریق کے لیے اپنے آپ کو زندہ رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر جنگ میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت ملوث ہو یعنی وہ دنیا کی سپر پاور ہو اور اس کے مقابلے میں مدرسوں کے تعلیم یافتہ لوگ ہوں جن کے پاس وسائل کی کمی ہو تو پھر اس دوسرے فریق کا جنگ میں باقی رہنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ لیکن جب ہم افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج اور طالبان کے درمیان ہونے والی جنگ دیکھتے ہیں تو حیرت زدہ رہ جانا پڑتا ہے۔ کیا کوئی یہ بات سوچ سکتا ہے کہ امریکہ کا مقابلہ ایک ایسا گروہ کرے جس کے پاس نہ ملک ہو نہ ہی جس کی پشت پر دنیا کے ممالک ہوں جو اس کی ہر محاذ پر حمایت کر سکیں اور اس کے باوجود امریکہ شکست کھا جائے اور مذکورہ گروہ اسے شکست دے دے تو یہ نہ صرف حیرت انگیز بات ہے بلکہ ناممکنات میں سے بھی ہے۔ لیکن طالبان نے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے۔ امریکہ انھیں شکست دینے میں ناکام رہا اور ایک طرح سے اسے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے اور پھر افغانستان سے نکل جانے کو ترجیح دی۔
امریکی افواج گیارہ ستمبر تک مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان کا ایک کے بعد ایک علاقہ طالبان کے قبضے میں آتا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک کے بیشتر حصوں پر ان کا قبضہ ہے۔ افغانستان کی فوج ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ طالبان نے خود کو دس برسوں سے امریکہ کے مقابلے میں کیسے زندہ رکھا۔ نہ صرف زندہ رکھا بلکہ امریکہ کو بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ آخر طالبان کے پاس اتنے وسائل کہاں سے آئے یا کہاں سے آرہے ہیں کہ اس کا خزانہ خالی ہی نہیں ہو رہا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جنگ میں اس کے دو کھرب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ بہت بڑی رقم ہے۔ اتنی رقم خرچ کرنے اور ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کے باوجود وہ طالبان کو شکست کیوں نہیں دے سکا۔ سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ طالبان کے ذرائع آمدنی کیا ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کا سب سے بڑا ذریعہ آمدنی منشیات کی پیداوار ہے۔ دوسرا بڑا ذریعہ ٹیکس کی وصولی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی اور وہاں شریعہ قانون کو سختی کے ساتھ نافذ کیا۔ ان کی فنڈنگ کے ذرائع کے بارے میں ویسے تو صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ خفیہ طور پر کام کرنے والی عسکری تنظیمیں اپنی آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات واضح نہیں کرتیں۔ تاہم افغانستان کے اندر اور ملک سے باہر بی بی سی نے جو انٹرویوز کیے ان سے ان کے پیچیدہ مالی نیٹ ورک اور ٹیکس کے نظام کا اندازہ ہوتا ہے۔سال 2020 میں سکیورٹی کونسل کی جانب سے شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق اس کے رکن اور دیگر ممالک کی جانب سے لگائے گئے اندازوں کے مطابق طالبان کی مجموعی سالانہ آمدنی 30 کروڑ ڈالر سے ڈیڑھ ارب ڈالر تک ہے۔افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا ملک ہے۔ یہاں سے سالانہ ڈیڑھ سے تین ارب ڈالر کی افیون کی بڑی تجارت ہوتی ہے اور یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر ہیروئن ا سمگل کرتا ہے۔
افغان حکومت کے کنٹرول والے علاقے میں بھی پوست کی کاشت ہوتی ہے لیکن زیادہ تر پوست طالبان کے کنٹرول
والے علاقے میں پیدا ہوتی ہے اور یہ ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ طالبان اس کے مختلف مراحل پر عائد ٹیکس سے رقوم حاصل کرتے ہیں۔ کسانوں سے پوست کی کاشت کے لیے دس فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے۔ ان لیبارٹریوں سے بھی ٹیکس لیا جاتا ہے جہاں افیون سے ہیروئن بنائی جاتی ہے اور ان تاجروں سے بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو غیر قانونی منشیات کی ا سمگلنگ کرتے ہیں۔ غیر قانونی منشیات کی معیشت میں طالبان کا سالانہ حصے کا اندازہ دس کروڑ سے 40 کروڑ امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے۔امریکی فوج کا کہنا ہے کہ طالبان کی 60 فیصد سے زیادہ آمدنی منشیات سے ہوتی ہے۔طالبان منشیات کی صنعت میں اپنی شمولیت سے انکار کرتے رہے ہیں اور وہ پوست کی کاشت پر سال 2000 میں مکمل پابندی عائد کرنے کے اپنے عمل پر فخر کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے سڑکوں پر ٹول ٹیکس بڑھایا گیا ہے جو ملک کے شمالی حصے میں ان کی طاقت میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ زکوٰة اور عُشر کی مد میں بھی عوام سے رقوم حاصل کی جاتی ہیں۔
خاص کر طالبان کے زیر انتظام شہری علاقے میں۔ اس کے علاوہ اب آئس یا کرسٹل میتھ کی پیداوار افغانستان میں منشیات کی ایک نئی صنعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ کرسٹل میتھ کو ہیروئن سے زیادہ منافع بخش اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی
پیداوار میں استعمال ہونے والے اجزا کی قیمت قدرے کم ہوتی ہے اور اس کے لیے بڑی لیبارٹریوں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ سکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے کرسٹل میتھ کی 60 فیصد لیبارٹریوں کا کنٹرول ہے جن میں سے زیادہ تر صوبہ فراہ اور نمروز میں موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے مطابق کرسٹل میتھ کی اسمگلنگ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ طالبان کا مالی نیٹ ورک منشیات کی سمگلنگ پر ٹیکس کی مد میں رقم وصولی کے علاوہ بھی خاصا وسیع ہے۔سال 2018 کے اوائل میں شائع ہونے والی بی بی سی کی تفتیشی رپورٹ میں یہ پتا چلا تھا کہ طالبان افغانستان کے 70 فیصد علاقے میں سرگرم ہیں اور اس کا وہاں وجود ہے۔ ان علاقوں میں طالبان نے اپنے دور اقتدار میں رائج ٹیکس کے نظام کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے محصولات دوسری صنعتوں جیسے ٹیلی مواصلات اور موبائل فون آپریٹرز سے بھی حاصل کرتے ہیں۔ افغانستان کی بجلی کمپنی کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ طالبان ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی کے صارفین سے سالانہ 20 لاکھ ڈالر سے زیادہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ براہ راست جنگ سے بھی آمدنی پیدا کی جاتی ہے۔ ہر بار جب طالبان کسی فوجی چوکی یا شہری مرکز پر قبضہ کرتے ہیں تو وہ خزانہ خالی کر دیتے ہیں اور متعدد ہتھیاروں کے ساتھ کاریں اور بکتر بند گاڑیاں بھی حاصل کر لیتے ہیں۔افغانستان معدنیات اور قیمتی پتھروں سے مالا مال ہے اور برسوں کی جنگ کے سبب ان کا بہت فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ افغانستان میں کان کنی کی صنعت ایک ارب ڈالر کی ہے۔ خیال رہے کہ زیادہ تر کان کنی چھوٹے پیمانے پر اور غیر قانونی طور پر ہوتی ہے۔ طالبان کے زیر انتظام ایسے علاقے جہاں قانونی اور غیر قانونی طور پر کان کنی ہوتی ہے طالبان کی جانب سے وہاں سے بھی جبری وصولی کی جاتی ہے۔ 2020 کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے مطابق ہلمند صوبے میں جائزہ ٹیم کے دورے کے دوران انھیں ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئیں جن کے مطابق سلیمانی ماربل، سونا، ایروگنائٹ، تانبہ، ٹن، زنک اور دیگر نایاب معدنیات کی کان کنی بھی طالبان کی آمدن کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے جن پر باقاعدگی سے ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ ضلع راغستان میں سونے کی کان کنی سے ماہانہ دو لاکھ ڈالر کمایا جاتا ہے۔ اس علاقے میں 100 سے زیادہ ایسکویٹرز موجود ہیں، جن سے طالبان انفرادی طور پر ہفتہ وار 300 سے 400 ڈالر حاصل کرتے ہیں۔ طالبان ملک بھر میں کان کنی سے سالانہ پانچ کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم محصول کے طور پر حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کی غیر ملکی فنڈنگ بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ بہت سے ممالک اس کی تردید کرتے ہیں۔
sanjumdelhi@gmail.com