لاہور: حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی خاص طور پر صوبہ پنجاب میں ایک اہم حلیف پاکستان مسلم لیگ قائد( پی ایم ایل کیو)کو اگرچہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے کوئی پریشانی یا ٹکراؤ نہیں ہے لیکن وہ یہ چاہتی ہے کہ جن اضلاع میں اس کی مضبوط سیاسی اساس ہے وہاں وہ مکمل انتظامی حصہ داری چاہتی ہے۔
گجرات کے چودھرہوں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی پارٹی پنجاب کی اعلیٰ بیورو کریسی میں شراکت داری کے حصول کے لیے کمر بستہ ہیں کیونکہ بیوروکریسی بظاہر بزدار کے جو حکومتی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، کنٹرول میں نہیں ہے۔
کچھ پارٹی رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر مسٹ بزدار ایک ”طاقتور“ وزیر اعلیٰ ہوتے تو پی ایم ایل کیو کو کوئی تشویش ہوتی اور نہ ہی اسے پی ٹی آئی حکومت کو ایک ہفتہ کی مہلت دینا پڑتی کہ پارٹی کی پریشانیوں پر سنجیدگی سے غور کرے۔
نومبر میں پنجاب میں وسیع پیمانے پرردو بدل میں انتظامیہ میں چیف سکریٹری اور پولس سربراہ کے، جو براہ راست وزیراعظم سکریٹریٹ سے احکام حاصل کرتے ہیں، اختیارات میں مزید اضافہ کردیا گیا تھا۔
جس سے وزیر اعلیٰ کا چیف ایکزیکٹیو کا عہدہ علامتی بن کر رہ گیا تھا۔پی ایم ایل کیو لیڈر نے کہا کہ یہ ہفتہ نہایت اہم ہے ۔ہم دیکھیں گے کہ ہمارے وزیروں اور قانون سازوں کوبااختیار بنانے کے لیے کوئی حکم جاری کیا جاتاہے یا نہیں۔اس کے بعد ہم فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔