What result will brought out of opposition alliance in Pakistanتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

گزشتہ ہفتے جب پاکستان میں ایک درجن اپوزیشن جماعتوں کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس سے لندن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا تو ایسا لگا کہ سیکورٹی فورسز اور فوج کے مقابلے میں ایک محاذ تیار ہو گیا ہے۔ دو برسوں سے اپوزیشن جماعتیں عمران خان کی زیر قیادت موجودہ حکومت کے خلاف بیان بازی کرتی اور یہ الزام عاید کرتی رہی ہیں کہ عمران خان کا انتخاب ایماندارنہ نہیں تھا اور فوج نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت انھیں وزیر اعظم کے منصب پر فائز کیا ہے ۔ لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ اپوزیشن اور بالخصوص نواز شریف نے اپنی توپ کار خ عمران خان سے موڑ کر فوج کی جانب کر دیا اور اعلان کیا کہ ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جنھوں نے انھیں اس منصب پر بٹھایا ہے۔ انھوں نے عمران خان کو ایک الیکٹیڈ وزیر اعظم کے بجائے سلیکٹیڈ وزیر اعظم قرار دیا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کی لڑائی جاری رہے گی۔ اس کانفرنس میں تقریباً ایک درجن سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا اور 26 نکاتی ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ نام سے ایک نیا محاذ بنایا گیا ہے۔ اس ایکشن پلان کے تحت پہلے مرحلے میں آئندہ ماہ تمام صوبوں میں جلسے اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔ اس کے بعد دسمبر میں عوامی مظاہرے ہوں گے اور جنوری 2021 میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا جائے گا۔ حکومت کی تبدیلی کے لیے عدم اعتماد کی تحریک اور اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا آپشن بھی حزب اختلاف کے ایکشن پلان میں شامل ہے۔ اس آل پارٹی کانفرنس یا اے پی سی میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔

نواز شریف نے کہا کہ میں وطن سے دور ہوتے ہوئے بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ ملک کس دور سے گزر رہا ہے اور عوام کن مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ جمہوری نظام کا عدم تسلسل ہے۔ پاکستان کو 73 سال سے حقیقی جمہوریت سے محروم رکھا گیا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ ملک میں ریاست کے اندر ریاست ہے۔ تاہم اب یہ معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ گیا ہے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں بلوچستان حکومت کی تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ سازش سینیٹ انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کی گئی۔ انھوں نے سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اربوں روپے کے اثاثے سامنے آنے کے باوجود کسی ادارے نے ا±ن سے سوال نہیں کیا۔ احتساب کا راگ الاپنے والے وزیر اعظم نے بھی بغیر تحقیق کے عاصم سلیم باجوا کو کلین چٹ دے دی۔ در اصل گزشتہ دو برسوں کے دوران احتساب کے نام پر متعدد اپوزیشن رہنماو¿ں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی جماعتیں ایک ساتھ آگئیں۔لیکن ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس اتحاد میں دراڑیں نظر آنے لگی ہیں۔ نواز شریف نے جو الزامات لگائے عمران خان کی حکومت تو ان کے جواب نہیں دے سکی لیکن فوج سامنے آگئی۔ اس نے متعدد میڈیا لیکس اور بیانات کے ذریعے اس اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ نے منتخب اراکین پارلیماں سے ایک ملاقات میں کہا کہ سیاست سے متعلق معاملات سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون کی منظوری سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ ہی احتساب بیورو سے اس کا کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان سے متعلق امور سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ میڈیا میں ایسی خبریں افشا کرائی گئیں کہ کل جماعتی کانفرنس سے قبل متعدد اپوزیشن رہنماو¿ں نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔ ریلوے وزیر شیخ رشید نے جو کہ فوج کے قریبی مانے جاتے ہیں اپوزیشن پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف فوج پر تنقید کی جاتی ہے اور دوسری طرف چپکے چپکے فوجی عہدے داروں سے ملاقات بھی کی جاتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ نواز شریف کے بھائی اور مسلم لیگ نون کے موجودہ صدر شہباز شریف، خواجہ آصف، احسن اقبال، بلاول بھٹو زرداری اور شیری رحمان نے آرمی چیف سے ملاقات کی ہے۔ شہباز شریف اور بلاول نے ملاقات کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ سیکورٹی امور پر تبادلہ خیال کے لیے میٹنگ کی گئی تھی۔ اپوزیشن رہنماو¿ں کا خیال ہے کہ ان کے اتحاد کو توڑنے کے مقصد سے اس ملاقات کو میڈیا میں لیک کرایا گیا ہے۔

اپوزیسن کی کانفرنس پر سیاسی تجزیہ کار الگ الگ رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ 2006 میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جو چارٹر بنایا گیا تھا اس کے احیا پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اپنی اپنی سہولتوں کے مطابق اس چارٹر کو ناکام یا کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاست دانوں کو اپنے مفادات کے مطابق فوج سے مفاہمت کرنے سے کبھی کوئی گریز نہیں رہا۔ حالانکہ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران فوج کو سیاسی امور میں مداخلت کرنے کے کم مواقع ملتے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قیام سے کر اب تک کی بیشتر حکومتوں پر فوج کی ہی بالادستی رہی ہے۔ مارشل لا تو چھوڑ دیجیے، وہ تو فوجی حکومتیں رہی ہیں۔ منتخب اور جمہوری حکومتیں بھی کوئی بہت جمہوری نہیں رہی ہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ سیاست پر فوج کا غلبہ رہا ہے اور فوج کی مرضی کے بغیر بڑے فیصلے کرنا ناممکن رہا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کو کبھی بھی پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہ بات درست ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ایک ساتھ آزاد ہوئے۔ لیکن ہندوستان میں جمہوریت کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست ہیں جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ جب دو سال قبل نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ عدلیہ کے توسط سے کیا گیا تو اس وقت بھی یہی الزامات لگائے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ چونکہ نواز شریف فوج کی سرپرستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے ان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ جب انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت میں عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ عمران خان کو فوج لے کر آئی ہے۔ نواز شریف نے اپنی تقریر میں اسی جانب اشارہ کیا او رکہا کہ ان کی لڑائی عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ ان کو لانے والوں کے خلاف ہے۔ لیکن کیا فوج اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف یہ نیا محاذ کوئی کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔ اس کی توقع بہت کم ہے۔ کیونکہ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ جس کو جب موقع ملتا ہے فوج سے سانٹھ گانٹھ کر لیتا ہے۔ تقریروں اور بیانات میں جمہوریت کی دہائی دی جاتی ہے لیکن عملاً کوئی بھی سیاسی جماعت جمہوریت کے تعلق سے مخلص نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں عوامی اور معاشرتی سطح پر بھی جمہوری مزاج پیدا نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو فوج کی بالادستی ہی ہےاور شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر سیاست داں اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ جس کی وجہ سے کرپشن کا بول بالا ہے۔ عدلیہ کو بھی مکمل طور پر آزاد نہیں کہا جا سکتا۔ جب بھی اقتدار میں تبدیلی ہوئی ہے تو اس کا کردار بھی بدل گیا ہے۔ لہٰذا اس کی امید بہت کم ہے کہ آل پارٹی کانفرنس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا۔ تاہم ہماری دعا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ہو اور جو بھی حکومت بنے خالصتاً جمہوری ہو۔

پاکستان میں سیاسی اتحادوں پر ایک نظر

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو حکومت وقت کے خلاف حزب اختلاف نے متعدد مشترکہ تحریکیں شروع کیں۔ 1968 میں فوجی حکومت کے پہلے صدر ایوب خان کے خلاف نوابزادہ نصراللہ خان نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر اکٹھا کیا جس کے نتیجے میں ملک میں فوجی حکومت کے خلاف احتجاج نے زور پکڑا۔ ایوب خان کے مخالف تحریک میں ایئر مارشل اصغر خان پیش پیش تھے۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو نے خود کو سیاسی طور پر مستحکم کیا اور وہ ایک نمایاں لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اس اتحاد کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں شروع ہوئیں جس میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ 1969 مظاہروں میں شدت آئی تو صدر ایوب نے استعفی دیا اور اقتدار کا تاج اس وقت کے کمانڈر ان چیف یحیٰ خان کے سر سجا جس کے بعد لیگل فریم ورک آرڈر طے کیے گئے اور 1970 میں انتخابات کروائے گئے جس کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک اور تنازع پیدا ہوا اور ملک تقسیم ہو گیا۔ 1977 کے انتخابات سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس کے نام سے اپوزیشن کی نو جماعتوں نے اتحاد قائم کیا۔ تحریک استقلال کے اصغر خان، جماعت اسلامی کے مولانا مودودی، جمعیت علمائے پاکستان کے شاہ احمد نورانی اور اے این پی خان عبد الولی خان کی قیادت میں قائم کیے جانے والے اس اتحاد کو 1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی۔ اپوزیشن کے اتحاد نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا، انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا۔ احتجاج میں شدت آنے کے بعد فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق نے ملک میں ایک بار پھر مارشل لاءنافذ کر دیا۔ اپوزیشن کا یہ اتحاد اتنا کمزور ثابت ہوا کہ ضیاءالحق کے اقتدار سنبھالتے ہی اتحاد میں شامل متعدد جماعتیں ان کی کابینہ کا حصہ بن گئیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اور بڑا اتحاد ایم آر ڈی (موومینٹ فار ریسٹوریشن فار ڈیموکریسی) تھا جو1981 میں بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی قیادت میں ضیاءالحق کی حکومت کے خلاف قائم کیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد طویل مدت کے لیے تھا جو 1981 سے 1988 تک قائم رہا۔ اس اتحاد میں پاکستان پیپلز پارٹی، قومی عوامی تحریک، تحریک استقلال، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان شامل تھیں۔ 1988 کے انتخابات سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی مخالف اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے نام سے نو جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا۔ جس میں مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور نیشنل پیپلز پارٹی شامل تھیں۔ 1988 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی تو پنجاب میں نوازشریف ایک مقبول سیاستدان کے طور پر ابھرے اور انھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھال لیا۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *