When will Britain take a stand against Pakistan?تصویر سوشل میڈیا

تھریسا مئے کی ، جو اوور سیز بجٹ میں تخفیف سے بہت دل برداشتہ تھیں،مہربانی سے دنیا میں برطانیہ کے اخلاقی کردار پر اب ہم سب آگ بگولہ ہیںکہ پاکستان سے پینگیں کیسے بڑھائی جا رہی ہیں؟ اس ہفتہ ایک پاکستانی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ12 سالہ مسیحی لڑکی فرح شاہین نے اپنی دوگنی عمر کے شخص سے اپنی مرضی سے شادی اور برضا و رغبت اسلام قبول کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ جب ماہ دسمبر میں اس لڑکی کو اس کے اغوا کنندہ خضر احمد علی کے گھر سے بازیاب کرایا گیا تو تو وہ اس قدر بدحواس اور خوفزدہ تھی کہ وہ بول نہیں پا رہی تھی کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران، جب اس نے ،ہائے، ایک29سالہ شخص سے اپنی مرضی سے شادی اور برضا و رغبت اسلام قبول کرنے کا اعتراف کیا تھا، تو اس پر کیا بیتی۔ لیکن اس کے والد آصف مسیح کے، جنہوں نے ایڈ ٹو دی چرچ ان نیڈ چیریٹی کا ایک بیان دیا، مطابق اسکو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں سے جکڑا رکھا جاتا تھا ،طلوع آفتاب سے ہی اسے کام پر لگا دیا جاتا تھا،عام طور پر اس سے غلاظت صاف کرائی جاتی تھی اور اس شخص کی جس نے اسے اس کے گھر سے اغوا کیا تھا بار بار جنسی ہوس پوری کرنا پڑتی تھی۔وہ جیسا کہ میں بتا رہا ہوں ،12سال کی ہے۔مسٹر علی فیصل آباد میں پولس تحقیقات کا منتظرتھا۔

پولس کی میڈیکل رپورٹ میں اس کی عمر16یا 17سال بتائی گئی۔جبکہ اس کا پیدائش سرٹیفکٹ اور والدین کے مطابق وہ12سال کی ہے۔ دی ٹائمزنے جس نے اس کیس کی خبر شا ئع کی ،اس کی تصاویر بھی دیکھی ہیں جس میں اس کے ٹخنوں اور کلائیوں پر زخموں کے گہرے نشان تھے۔ایک تحقیقاتی افسر مصدق ریاض نے دی ٹائمز کو بتایا کہ فرح شاہین نے ایک مجسٹریٹ کے روبرو اعتراف کیا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی اور وہ اس شخص کے ساتھ جس سے اس نے شادی کی ہے رہنا چاہتی ہے۔اب یہ کسی ایک پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے نمائندہ خصوصی برائے امور مذہبی ہم آہنگی طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ حکومتی ادارے اس معاملہ کو دیکھیں گے۔اور اس میں بھی توہین مذہب قوانین کا ،جسے پاکستانی حکام ہر مذہبی اقلیتی فرد کو خوفزدہ کیے رکھنے کا ہتھیار بنائے رکھتے ہیں، اطلاق نہیں کیا جائے گا۔گذشتہ ستمبر میں لاہور کی ایک عدالت ایک ٹیکسٹائل فیکٹری کے ایک مسیحی ملازم آصف پرویز کو توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت دے چکی ہے ۔اس پر اس کے سپر وائزر نے الزام لگایا تھا کہاس نے پیغمبر اسلام محمد ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات استعمال کیے تھے۔(آصف کا کہنا ہے کہ اس پر یہ الزام اس لیے لگایا گیا کیونکہ اس نے اسلام قبول کرنے سے انکار کرد یا تھا)۔

کیا وزیر اعظم عمران خان اس معاملہ کو دیکھیں گے۔لیکن کیسے دیکھ سکتے ہٰں جبکہ انہوں نے کرسمس سے محض چند روز قبل توہین رسالت قوانین کے سختی کے ساتھ نفاذ کی شد و مد سے وکالت کرنے والوں میں سے ایک کے انتقال کرجانے کے بعد اس کی تجہیز و تکفین کے موقع پرجو پیغام تعزیت بھیجا تھا اس میں اس کے لواحقین سے نہایت درجہ اظہار ہمدردی اور مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت اور اس کی روح کو سکون پہنچنے کے دعائیہ کلمات لکھے نتھے ۔ان کا ریکارڈ دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی توہین مذہب قوانین کے حوالے سے کچھ نہیں کر پائیں گے۔لہٰذا اب یہ دوسروںکی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان سے اپنی مذہبی اقلیتوں سے بدسلوکی کی باز پرس کریں۔ابھی تک تو ایسی کوئی علامت نظر نہیں آئی کہ ملکہ عالیہ کی حکومت اس ضمن میں کچھ کر رہی ہے حالانکہ یو کے ہائی کمشنر متعین پاکستان ڈاکٹر کرسچین ٹرنر کا کام آسان نہیں ہو سکتا۔گذشتہ سال اس وقت کی وزارت بین الاقوامی امداد نے پاکستان میں خاص طور پر تعلیم کے شعبہ میں 302ملین پاو¿نڈ خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یو کے قرضہ فراہمی ایجنسی نے پاکستان میں یوکے کی سرمایہ کاری کی حد بڑھا دی ۔ویزا اور امیگریشن امور کے وزیر نے پاکستان کے طلبا کی حصول تعلیم کے لیے یو کے کا انتخاب کرنے کی حوصلہ افزائی کی، برطانوی ہائی کمیشن واقع پاکستان صلاحیتیں بڑھانے کے لیے چیوننگ اسکالر شپ کی درخواست دینے کے لیے پاکستانی خواتین کی زبردست حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ یہ نیک نیتی اور قابل تحسین کام کو کیسے روکا جاسکتا ہے ۔

لیکن پھر بھی یہ کبھی درست نہیں ہو سکتا کہ ایک ایسی حکومت کی مدد کی جائے جس کی قیادت میں مسیحیوں، ہندوو¿ں اور دیگر مذہبی اقلیتوں سے بد سلوکی کی جارہی ہے اور جس کے توہین مذہب قوانین سے ایک مہذب سیاسی نظام کی رسوائی ہو رہی ہو؟میرا تجزیہ ہے کہ اپنے دماغوں میں بیک وقت دو ایسے خیالات جو باہم ٹکراتے ہوں رکھنا بہت مشکل ہے۔ لیکن یہ بہرحال ممکن ہے کہ چین میں ایغور مسلمانوں کی بدترین صورت حال اور مسلم ممالک میں مسیحیوں کے حقوق کے پر کام کیا جائے۔ اور یہ قابل استدلال ہے کہ ملکہ عالیہ کی حکومت کے اپنی اقلیتوں کے حوالے سے پاکستان پر اپنا اخلاقی اثر و رسوخ استعمال کرنا روئے زمین پر جی ڈی پی کے لحاظ سے دوسری سب سے بڑی معیشت بنانے کی کوششوں سے زیادہ اہم ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *