واشنگٹن: (اے یو ایس ) امریکی صدارتی دفتر وائٹ ہاﺅس نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کی ایران سے متعلق پالیسی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ترجمان وائٹ ہاﺅس جین ساکی نے پیر کو نیوز بریفنگ کے دوران صدر جو بائیڈن کے اس بیان کی بھی وضاحت کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس وقت تک ایران پر عائد معاشی پابندیاں نہیں ہٹائے گا جب تک ایران 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت یورینیم کی افزودگی کم نہیں کرتا۔
اتوار کو امریکی ٹی وی ‘سی بی ایس’ پر نشر ہونے والے انٹرویو میں صدر جو بائیڈن نے اس تاثر کو رد کر دیا تھا کہ امریکہ ایران پر عائد پابندیاں ہٹا کر مذاکرات کے لیے پہل کرے گا۔جب صحافیوں نے ترجمان وائٹ ہاﺅس سے اس سلسلے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ کو ایران سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی کرنا ہو گی تو وہ مختلف طریقے سے کی جائے گی۔جین ساکی نے کہا کہ ایران کے معاملے پر امریکہ کی وہی پوزیشن ہے جو اس سے قبل تھی۔ اگر ایران جوہری معاہدے کی مکمل پاسداری کرتا ہے تو امریکہ بھی ایسا ہی کرے گا۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دورِ حکومت میں عالمی طاقتوں کی موجودگی میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت ایران نے یورنینم کی افزودگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اس کے بدلے میں امریکہ کو ایران پر عائد پابندیاں اٹھانا تھیں۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذکورہ معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ترجمان وائٹ ہاﺅس نے پیر کو نیوز بریفنگ کے دوران ایران کے معاملے پر کہا کہ ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں وسیع و مضبوط معاہدہ طے پائے جس کے تحت دیگر امور پر تحفظات پر بھی بات چیت کی جاسکے۔
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے حکام کی جانب سے یہ بازگشت بھی ہو رہی ہے کہ وہ براہِ راست ایران کے ساتھ بات چیت کرنے کے بجائے اتحادیوں کے ساتھ مسئلے پر بات کر رہے ہیں۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ “جہاں تک ایرانی حکام سے بات چیت کی بات ہے، ہم وہاں ابھی نہیں پہنچے۔”ا±ن کے بقول ایران کے معاملے پر ہم اپنے دوستوں، قریبی شراکت داروں اور اتحادیوں سمیت امریکی کانگریس کو باخبر رکھنا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ بائیڈن اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ایران سے طے پانے والے جوہری معاہدے میں دوبارہ شریک ہو۔
ادھر ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے سرکاری ٹی وی پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ ایران معاہدوں کی پاسداری کرے تو اسے چاہیے کہ تہران پر عائد تمام پابندیاں اٹھا لے۔ا±ن کے بقول جب ہمیں یقین ہو جائے گا کہ تمام پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں تو ہم اپنے وعدوں کی طرف واپس پلٹ آئیں گے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی 20 جنوری کو حلف برداری کے بعد ایرانی رہبر اعلیٰ کا یہ پہلا بیان ہے۔وائٹ ہاﺅس کی ترجمان نے صدر بائیڈن کی جانب سے چینی ہم منصب سے رابطہ نہ کرنے سے متعلق صحافیوں کے سوال پر کہا کہ صدر نے جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کے رہنماﺅں سے رابطے کیے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین ایک اہم موضوع ہے جس پر صدر بائیڈن نے عالمی رہنماﺅں سے بات کی ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کی یورپی ملکوں کے رہنماﺅں سے گفتگو کے دوران بھی چین موضوعِ بحث رہا ہے۔
لہٰذا ہماری پالیسی کا حصہ ہے کہ خطے کے اپنے اتحادیوں سے قریبی تعلقات اور مشاورت کا سلسلہ بڑھایا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ صدر بائیڈن نے ابھی تمام عالمی رہنماﺅں سے بات نہیں کی اور وہ آئندہ چند ہفتوں میں ایسا کریں گے۔یاد رہے کہ صدر بائیڈن نے ‘سی بی سی’ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ اس میں کوئی وجہ نہیں کہ وہ چینی ہم منصب شی جن پنگ کو فون نہیں کریں گے۔انہوں نے چینی ہم منصب کی تعریف بھی کی تاہم انہوں نے خبردار کیا تھا کہ امریکہ کے چین کے ساتھ ٹرمپ دور کے مقابلے میں مختلف قسم کے تعلقات ہوں گے۔