Who behind the killing of Baloch seperatists in Afghanistanتصویر سوشل میڈیا

کراچی: (اے یو ایس)پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے کالعدم علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے اہم کمانڈر کی افغانستان کے شہر قندھار میں ہونے والے ایک حملے میں ہلاکت کے بعد ایک بار پھر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ افغانستان میں پناہ لینے والے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے رہنماو¿ں اور اراکین کی ہلاکتوں کے پیچھے کون ہے؟افغانستان کے شہر قندھار میں 27 مئی کو بی ایل اے کے ایک اہم کمانڈر میر عبدالنبی بنگلزئی ایک پراسرار حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔بلوچستان کی شورش پر گہری نظر رکھنے والے بعض تجزیہ کار میر عبدالنبی بنگلزئی کی ہلاکت کو بلوچ علیحدگی پسندی کی تحریک کے لیے ایک بڑا دھچکہ قراردے رہے ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکت حکومتِ پاکستان کے ان دعوو¿ں کی تصدیق بھی کر رہی ہے کہ بلوچ اور سندھی علیحدگی پسند تنظیمیں، افغانستان سے پاکستان میں پرتشدد کارروائیاں کر رہی ہیں۔بی ایل اے نے اپنے ایک اعلامیے میں میر عبدالنبی بنگلزئی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ البتہ کسی بھی تنظیم کی جانب سے ہلاکت کی ذمے داری ابھی تک قبول نہیں کی گئی ہے۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں متعدد کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں فعال ہیں جن میں سرکردہ ‘بی ایل اے’ اور اللہ نذربلوچ کی سربراہی میں فعال بلوچ لبریشن فرنٹ، برہمداغ بگٹی کی بلوچ ریبپلکن پارٹی (بی آر پی) شامل ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ گروہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ چینی حکومت کے مفادات، خصوصاً چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ان گروہوں کا یہ الزام رہا ہے کہ ان منصوبوں کے ذریعے بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کر کے بلوچوں کو ا±ن کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔پاکستانی حکومت کئی برسوں سے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔میر عبدالنبی بنگلزئی کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بی ایل اے کے ترجمان جینئد بلوچ نے اپنے اعلامیے میں انہیں کالعدم تنظیم کے تجربہ کار ساتھی اور اعلیٰ کمانڈروں میں سے ایک قرار دیا ہے۔بی ایل اے کے بیان میں میر بنگلزئی کی ہلاکت کی جگہ نہیں بتائی گئی ہے۔ البتہ افغانستان کے نجی ٹی وی چینل ‘شمشاد’ کے مطابق 27 مئی کی سہ پہر قندھار کے پولیس ڈسٹرکٹ تھری کی حدود میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے بلوچ علیحدگی پسند رہنما میر عبدالنبی بنگلزئی ہلاک ہوئے۔

بی ایل اے کے بیان کے مطابق میر بنگلزئی 2002 میں تنظیم میں شامل ہوئے اور اسلم بلوچ عرف اسلم اچھو اور تنظیم کے دیگر مارے جانے والے تنظیمی رہنما آغا محمود خان، میر عبدالغفار لانگو اور سگار امیر بخش لانگو کے انتہائی قریبی ساتھی تھے۔بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے اندرونی معاملات سے باخبر بلوچستان کے ایک صحافی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چنکا میر کے نام سے مشہور 57 سالہ میر بنگلزئی نے تنظیمی و قبائلی امور پر دانشمندانہ دسترس رکھنے کی وجہ سے ‘بی ایل اے’ کو منظم کیا اور 2012 میں بی ایل اے کے کمانڈر بنا دیے گئے۔بلوچستان کے صحافیوں اور سیاسی رہنماو¿ں کے مطابق افغانستان میں گزشتہ دو، تین برسوں سے افغانستان کے دو صوبوں قندھار اور ہلمند میں پناہ لینے والے بلوچ علیحدگی پسند رہنما اور ان کے خاندان کے افراد پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔خیال رہے کہ قندھار اور ہلمند صوبوں کی سرحدیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ملتی ہیں۔صحافیوں کے بقول افغانستان میں بلوچ علیحدگی پسند رہنماو¿ں کی ہلاکتوں کا سلسلہ دسمبر 2018 میں بی ایل اے کے اہم کمانڈر اسلم بلوچ عرف اچھو کی ہلاکت سے شروع ہوا۔ وہ قندھار کے مہنگے ترین علاقے عینو مینا میں ایک خود کش حملے میں چار ساتھیوں سمیت مارے گئے تھے۔پاکستانی حکومت نے اسلم بلوچ عرف اچھو کو کراچی میں نومبر 2018 کے اواخر میں چین کے قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر مقدمات میں نامزد کرتے ہوئے ان کے سر کی قمیت 50 لاکھ روپے رکھی تھی۔اسی طرح کراچی شہر میں ہی جب بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے جون 2020 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پرحملہ کیا تو حملے کے دوسرے دن قندھار کے عینو مینا ہی کے علاقے میں بی ایل اے کے زیر استعمال ایک گھر کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔گزشتہ سال دسمبر میں افغانستان کے صوبے نمروز سے پاکستانی بلوچ رہنما حضرت گل کے بیٹے کو نامعلوم افراد نے اغوا کر کے اس کی تشدد زدہ لاش پھینک دی۔بلوچ علیحدگی پسند حامی ویب سائٹس کے مابق حضرت گل پاکستان میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز سے بچ کر افغانستان پناہ لینے والے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے رہنماو¿ں اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے رہائش کا بندوبست کرتے تھے۔اسی ماہ قندھار میں ہی بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے دو افراد گلبہار بگٹی اور ان کے بیٹے مراد علی بگٹی ایک فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہوئے۔’بی آر پی‘ کے سربراہ براہمداغ بگٹی نے ٹوئٹر پر ان ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے اکہا کہ ماضی قریب میں گلبہار بگٹی کا ایک بیٹا، پوتا اور بھتیجا پہلے ہی افغانستان میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں۔

فروری میں بی ایل ایف کے دو اراکین قندھار میں ہی فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے۔اپریل میں قندھار کے سرحدی قصبے اسپین بولدک میں بگٹی قبیلے کے چار افراد ہلاک ہوئے جس کی تصدیق بی آر پی کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے ٹوئٹر پر کی۔بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے معاملات سے باخبر تربت کے ایک طالبعلم سیاسی رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ گروہ افغانستان میں موجودگی اور ہلاکتوں اورحملوں کا ذکر اس لیے کھلے الفاظ میں نہیں کرتے کہ کہیں پاکستانی اہلکاروں کو ان کے ٹھکانوں کا پتا نہ چلے۔خیال رہے کہ بی ایل اے نے بھی اپنے اعلامیے میں میر بنگلزئی کی ہلاکت کی جگہ بتانے سے گریز کیا۔طالبعلم رہنما کے بقول ”ہر ماہ قندھار یا دیگر افغان صوبوں میں اندازاً ایک یا دو ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے رہنماو¿ں یا رشتہ داروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔“بلوچ علیحدگی پسند رہنماو¿ں کی افغانستان میں ہلاکتوں کی ذمے داری کسی بھی گروہ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی مگر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کا یہ الزام ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی ادارے ان ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔البتہ بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے آپس میں اختلافات کی وجہ سے یہ ہلاکتیں ہو رہی ہوں۔ان کے بقول،”یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ہلاکتیں اسلام آباد کے اس دعوے کی تائید کرتی ہیں کہ افغانستان کی سر زمین پر پاکستان مخالف بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو ٹھکانے اور مدد فراہم کی جا رہی ہے تاکہ بلوچستان میں شورش کو ہوا دی جا سکے۔“قندھار کے ایک قبائلی رہنما ملک احمد نورزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قندھار سمیت افغانستان بھر میں وار لارڈز، ڈرگ لارڈز، سرکاری سیکیورٹی افسران اور افغان طالبان کے منحرف کمانڈر پیسوں کے عوض کسی کو کہیں بھی آسانی سے مار سکتے ہیں۔پاکستان شروع ہی سے قندھار کے سیکیورٹی چیف عبدالرازق اچکزئی پر بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو خفیہ ٹھکانے اور انہیں سرحد پار حملوں میں مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کرتا رہا ہے۔البتہ کوئٹہ میں تعینات ایک سیکیورٹی اہلکار نے وائس آف امریکہ کو نام شائع نہ کرنے پر بتایا کہ عبدالرازق اچکزئی کی اکتوبر 2018 میں ہلاکت کے بعد بلوچ علیحدگی پسند گروہ ایک بڑے با اثر حامی کی حمایت کھو بیٹھے۔

خیال رہے کہ عبدالرازق اچکزئی کی ہلاکت کے بعد ان کے بھائی تادین خان کو ان کی جگہ قندھار کا سیکیورٹی چیف مقرر کیا گیا۔پاکستان کی جانب سے بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کے الزامات کے جواب میں کابل حکومت، پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کے الزامات عائد کرتی رہتی ہے۔اسی طرح حکومتِ پاکستان ہمسایہ ملک بھارت پر بھی الزامات لگاتی ہے کہ وہ بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی مدد کر رہا ہے لیکن نئی دہلی کی حکومت ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتی رہی ہے۔سرحد پار بلوچستان کے تاجروں کے ساتھ کاروبار کرنے والے ملک احمد نورزئی نے کہا کہ ”کئی برسوں سے قندھار میں پاکستان مخالف گروہوں، خصوصاً بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے وابستہ افراد کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں مگر قندھار کی اپنی سیکیورٹی کی صورت حال اتنی بری ہے کہ ایسے واقعات دب جاتے ہیں۔“ان کے بقول، ”یہ پیسے پاکستان دے یا چین، کسی کو بھی اجرت کے عوض قتل کرنے کے لیے تیار کئی گروہ افغانستان میں فعال ہیں۔“پاکستان کے بلوچ علیحدگی پسند گروہ ایک عرصے تک ایران کے سرحدی صوبے سیستان بلوچستان میں ایرانی حکومت کے خلاف فعال سنی بلوچ شدت پسند تنظیم جیش العدل کے ساتھ تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کو خفیہ ٹھکانے فراہم کرنے اور سرحد پار حملوں میں بھی ایک دوسرے کو مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ایرانی حکومت کی جانب سے سخت کریک ڈاو¿ن کے بعد پاکستان کے علیحدگی پسند گروہوں کو افغانستان کے صوبے قندھار میں اپنے خفیہ ٹھکانے منتقل کرنا پڑے۔سندھ پولیس کے شعبہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے مطابق سندھ کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیم سندھو دیش ریولوشنری آرمی کے سربراہ سید اصغر شاہ نے بھی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ قندھار میں پناہ لے رکھی ہے۔پاکستانی حکام کے بقول بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی طرح پاکستان کی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما بھی افغانستان کے سرحدی صوبوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔’ٹی ٹی پی‘ کے متعدد رہنما، بشمول سربراہ ملا فضل اللہ، امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے ہیں مگر گزشتہ دو برسوں سے پراسرار طریقے سے فائرنگ یا بم دھماکوں کے واقعات میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں ان کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔خیال رہے کہ پاکستان نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا۔

اس آپریشن کے سبب شمالی وزیرستان میں ملک بھر سے جمع ہوئے ٹی ٹی پی کے دھڑوں اوردیگر تنظیموں کے رہنما اورخاندانوں کو افغانستان کے سرحدی صوبوں کی جانب منتقل ہونا پڑا۔جنوبی اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان گروہ افغانستان کے صوبوں پکتیکا اورخوست جب کہ سوات، باجوڑ، مہمند، خیبر اور دیگر قریبی علاقوں میں سرگرم ’ٹی ٹی پی‘ کے شدت پسند افغان صوبوں کنڑ اورننگرہار منتقل ہو گئے تھے۔امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے حالیہ اعلان کے تناظر میں خطے کی بدلتی صورتِ حال کے پیشِ نظر بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کا مستقبل بھی غیر یقینی کا شکار نظر آ رہا ہے۔سینیٹر انوار کاکڑ کے خیال میں نئے پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں ”امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کی صورتِ حال میں بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔“ مختلف ممکنہ حالات کے حوالے سے ان کے بقول، ”ان گروہوں کو موجود اب آ سائشیں یا آزادیاں مستقبل قریب کے افغانستان میں دستیاب نہیں ہوں گی۔“بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے اندرونی معاملات سے باخبر حلقے بھی سینیٹر کاکڑ کی بات سے متفق ہیں۔بلوچ طالبعلم رہنما نے حالات میں ممکنہ طور پر آنے والی تبدیلیوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد قندھار اور افغانستان کے سرحدی صوبے افغان طالبان کے مکمل کنٹرول میں اجائیں گے جو پاکستان اور چین کی حکومتوں سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ان کے بقول،”یہ کہنا قبل از وقت ہو گا مگر یوں لگ رہا ہے کہ مستقبل کے افغانستان میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو قندھار سے نکل کر شاید افغانستان کے شمال میں ان صوبوں میں جانا پڑے جہاں پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے ماضی میں تشکیل دیے گئے طالبان مخالف شمالی اتحاد کا اثرو نفوس ہے۔“

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *