خرطوم :(اے یو ایس ) آزاد اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ تقریباً34 فیصد سوڈانی لڑکیاں اپنی اٹھارویں سالگرہ تک پہنچنے سے پہلے ہی شادی کر لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کم عمر لڑکیوں کی شادی کے اعتبار سے سوڈان کا شمار عالمی انڈیکس میں 29 ویں نمبر پر ہے۔ سوڈان کا شمار غریب ممالک میں ہوتا ہے اور اس کی آبادی کا 70 فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتا ہے۔ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے کئی اسباب ہیں جن میں سماجی،مذہبی معاشی عوامل شامل ہیں۔
سوڈان میں نابالغ عمر میں شادی کرنے والی امونہ نے اپنی کہانی’اسکائی نیوز عربیہ‘ کو سنائی۔ اس نے افسوس کے ساتھ اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب اس کی شادی ایک پینتیس سالہ شخص کے ساتھ اس وقت کرائی گئی جب اس کی عمر محض13 سال تھی۔ اس وقت میرا ذہن پختہ نہیں تھا اور سوچ بھی نامکمل ہوتی تھی۔ ایک ایک عام بچی کی طرح سوچتی۔ میں اپنی والدہ کی ہدایت پر جلدی قائل ہو گئی کیونکہ میں مہندی اور شادی بیاہ جیسی رسوم پر خوش تھی۔اس نے مزید کہا کہ میں شادی کے بارے میں اس چہرے کے علاوہ کچھ نہیں جانتی تھی جس کے بارے میں میری والدہ مجھے راضی کرنا چاہتی تھیں۔ اس لیے میں نے اپنی پڑھائی جاری رکھنا چھوڑ دی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا۔اپنی زندگی کا ایک پورا مرحلہ کھو دیا۔ میں ایک کھیل کود کرنے والی بچی کے بجائے ایک مکمل عورت بن گئی جس پر خاندان اور شوہر کی ذمہ داری تھی۔خواتین اور بچوں کے خلاف انسداد تشدد کے شعبے میں سائنسی تحقیق کے شعبہ کی ڈائریکٹر فاطمہ سالم نے اس رجحان کے تسلسل کو کئی عوامل سے منسوب کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہرعلاقے کے اپنے رواج ہوتے ہیں وہ دوسرے علاقےسے الگ اور مختلف ہوسکتے ہیں۔ بچیوں کو جلد بیاہ دینے کے بڑے اسباب میں سماجی اور اقتصادی مسائل ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کچھ سوڈانی معاشروں میں شادی ہی عورت کی پیدائش کا واحد مقصد ہے۔ اس لیے وہ اکثر اپنی بیٹیوں کی تعلیم کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔دسمبرانقلاب کی کامیابی کے بعد، جس نے اخوان کی حکومت کا خاتمہ کیا ، خواتین کو سوڈان میں اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑ نے کا موقع ملا کیونکہ سابقہ اخوان حکومت خواتین کے لیے سب سے زیادہ جابرانہ حکومت تھی۔ اس کے بعدکچھ حقوق نسواں کی کارکنوں نے خانگی حیثیت کے قانون میں ترمیم کی کوشش کی جس میں لڑکیوں کو دس سال کی عمر میں شادی کی اجازت دی گئی تھی تاہم شادی کو عدالت کے ذریعے کرانے سے مشروط قرار دیا گیا۔
خواتین کے حقوق سے وابستہ کارکن اور عدیلہ الزئبق عبدالرحمن نے “اسکائی نیوز عربیہ” کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سوڈانی کارکن اب ذاتی حیثیت کے قانون کو تبدیل کرنے اور اس آرٹیکل کو منسوخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں دس سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادی کی شرط رکھی گئی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اس غیر منصفانہ قانون کو تبدیل کرنا کافی نہیں ہے سوڈانی معاشرے میں کم عمری کی شادی کے خطرے کے بارے میں شعور اجاگر کرنا بھی ضروری ہے۔
![Why 34 percent of girls are married before the age of 18 in Sudan](https://urdutahzeeb.com/wp-content/uploads/2021/09/girls-in-Sudan.jpg)