آزادی ہند قانون کے مطابق تقسیم ہونے والے دونوں ڈومینین ملکوں کی آزادی کا دن14اگست نہیں 15 اگست ہے ۔لیکن پاکستان نے 1948 کے بعد 15 اگست کو یوم آزادی کے طور پر منانا بند کر دیا۔ کے کے عزیز جیسے تاریخ دانوں نے تاریخ مسخ کرنے پر پاکستان کی سخت تنقید کی ۔ بہت سے تجزیہ نگار آج اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان نے محض خود کو ایک الگ سیاسی شناخت کے طور پر پیش کرنے کے لیے 15 کے بجائے 14 اگست کو یوم آزادی مناناطے کیا۔تاہم یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ 73سالوں کے بعد بھی بلوچ، پشتون، سندھی اور گلگت بلتستان کے عوام کسی طور پاکستانی یوم آزادی منانے تیار نہیں ہیں بلکہ اس روز بہت سے لوگ یوم سیاہ مناتے ہیں۔
برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان موجودہ پاکستان کے مجموعی حجم کے تقریباً نصف پرمحیط تھا۔ جو پنجاب (صوبہ بھاو لپور کے بغیر)، سندھ ( ریاست خیر پور کے بغیر) شمال مغربی صوبہ سرحد(کے پی) (ڈیر، چترال، سوات، پھلرا، امب اور قبائلی علاقوں کے بغیر) شامل تھے۔ اس وقت شمالی علاقوںکا کوئی وجود نہیں تھا کیونکہ ہنزہ اور نگر کی ریاستوں کا 1975 میں بھٹو کے دور حکومت میںشمالی علاقے تشکیل دینے کے لیے الحاق کیا گیا تھا آج انہیں گلگت بلتستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔فوج نے مارچ 1948میں بلوچستان کو بزور طاقت پاکستان میں شامل کر لیا ۔بلوچستان نے 11اگست 1947کو برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کر لی تھی اور کرہ ارض پر اس کا ایک آزاد و خود مختار ملک کے طور پر وجود سات مہینے تک رہا۔
پاکستان نے اپنے وجود میں آنے کے آٹھ سالوں کے اندر اِن تمام آزاد ریاستوں کا جبراً لحاق کر لیا۔ بلوچستان میں، جو آج بھی رقبہ کے لحاظ پاکستان کی مجموعی سرزمین کا 43 فیصد ہے، بہت سے لوگ یوم آزادی 14 کے بجائے 11 اگست کو مناتے ہیں۔ سندھ پہلا خطہ تھا جس نے کسی بھی دیگر علاقہ سے قبل پنجاب کے ساتھ مل کر پاکستان کے قیام میں مدد کی تھی، لیکن سب سے پہلے سندھ کے لوگوں کی پیٹھ میں ہی خنجر گھونپا گیا۔ الحاق کے تھوڑے ہی عرصہ بعد سندھی قوم پرست جی ایم سید نے سندھو دیش کی آزادی کی تحریک شروع کردی جو آج تک جاری و ساری ہے اورسندھ کی تاریخ میں 14 اگست ایک سیاہ دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
پشتون لوگ چونکہ خود کو افغانستان کا ایک حصہ سمجھتے ہیں ا س لیے انہوں نے کبھی بھی ڈیورنڈ لائن کو سرحد ی حد بندی کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔قیام پاکستان کے لیے پنجاب کے ساتھ جانے کے بجائے باچا خان جیسے پشتون رہنماؤں نے پشتون قوم پرستوں کے ہم آہنگ و ہم خیال ہو کر پشتونوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا ۔ انہوں نے استصواب رائے کا بائیکاٹ اس لیے کیا تھا کیونکہ ریفرنڈم کو اس طرز پر ترتیب دیا گیا تھا کہ پشتوں صرف پنجاب کا انتخاب کر سکتے ہیں اور اس میں ایک آزاد ملک یا افغانستان میں شمولیت کے لیے ووٹ کرنے کا کوئی متبادل نہیں دیا گیا تھا ۔
اس وقت سلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ آخر سوائے پنجابیوں کے باقی تمام قومیں 14اگست یوم آزادی کے بجائے یوم سوگ کے طور پر کیوں مناتی ہیں۔اس ضمن میں بہت سے تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام دھوکہ فریب، بدنیتی اور جھوٹ کی بنیاد پر عمل میں آیا۔پاکستان کے زیادہ تر حصے ” غیر قانونی اور جبراً قبضہ کیے گئے مقبوضہ علاقے “ کہے جاتے ہیں۔یہ پنجابیوں کی، جو ملک کے اصل حکمراں ہیں ، غلبہ والی پاکستانی فوج ہی واحد عنصر ہے جس کی وجہ سے پاکستان جدید شکل میں ابتک قائم ہے ۔سیاسی ماہرین کا خیال کچھ ہی عرصہ کی بات ہے فوج کی گرفت ایک بار پھر کمزور پڑ ی تو خطہ کا نقشہ ایک بار پھر تبدیل ہو جائے گا کیونکہ 1970 میں فوج کی گرفت جیسے ہی کمزور پڑی مشرقی پاکستان ہاتھوں سے نکل گیا اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آگیا ۔
