Why Federal cabinet gave power to Home Minister Sheikh Rashid to remove names from ECLتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد:(اے یو ایس ) پاکستان میں وفاقی کابینہ نے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کو ‘ایگزٹ کنٹرول لسٹ’ (ای سی ایل) میں ترامیم کرنے کے اختیارات تفویض کرنے کی اجازت دی ہے۔کابینہ کے مطابق یہ منظوری صرف عدلیہ کے احکامات پر عمل درآمد کے لیے دی گئی ہے۔ اس سے قبل اس کمیٹی کی سربراہی وزیرِ قانون کرتے تھے اور ان کے ساتھ مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر شامل تھے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ‘ایگزٹ کنٹرول لسٹ’ (ای سی ایل) میں ترمیم کی حتمی منظوری کابینہ سے لی جائے گی۔اس بارے میں قائم کردہ کابینہ کمیٹی وزیرِ داخلہ اور وزیر قانون پر مشتمل ہو گی جب کہ مشیر داخلہ و احتساب اور سیکریٹری داخلہ خصوصی دعوت پر اجلاس میں شریک ہوں گے۔ایگزٹ کنٹرول لسٹ بیرون ملک جانے کے خواہش مند ایسے افراد کو روکنے کے لیے تھی جن کا نام کسی مجرمانہ فعل کی وجہ سے یا کسی کیس میں ملوث ہونے کی بنا پر اس لسٹ میں آ جاتا تھا اور ان کے بیرون ملک فرار کا خدشہ ظاہر کیا جاتا تھا۔

ای سی ایل میں ان افراد کے نام شامل ہوتے ہیں جن کے بارے میں کسی عدالت، نیب یا خفیہ اداروں کی طرف سے ایف آئی اے امیگریشن کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔کسی شخص کا نام شامل کرنے کا اختیار ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے پاس ہوتا ہے لیکن یہ اختیار وزیرِ داخلہ بھی استعمال کر سکتا ہے۔مسلم لیگ (ن) نے سیکیورٹی بانڈز جمع کرانے کی حکومتی شرط مسترد کر دی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک کی ای سی ایل پالیسی سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں بنائی گئی تھی۔ان کے دور میں اس حوالے سے بعض شکایات سامنے آئیں جن میں گھریلو جھگڑے کی بنا پر بیوی نے شوہر کا نام یا کسی شخص نے اپنے عزیز کا نام صرف اعلیٰ حکام سے واقفیت کی بنیاد پر ای سی ایل میں شامل کروا دیا۔

کئی کئی برسوں تک یہ نام شامل رہے اور ان کو اس لسٹ سے نکالنے کا کوئی طریقہ کار بھی موجود نہیں تھا۔چوہدری نثار نے جب نئی پالیسی بنائی تو ایک ہفتے میں پانچ ہزار کے قریب لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکال دیے گئے۔ حکام کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں وہ نام بھی شامل تھے جن کا انتقال ہوئے کئی سال بیت گئے تھے۔

سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے ای سی ایل میں نام رکھنے کی مدت تین سال مقرر کی تھی اور اگر کسی شخص کے بارے میں مزید عدالتی احکامات موصول نہیں ہوتے تو اس شخص کا نام اس فہرست سے خارج ہو جاتا تھا۔ای سی ایل سے نام نکالنے کے حوالے سے سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی جو ہر ماہ دو مرتبہ اجلاس منعقد کر کے ایسی آنے والی درخواستوں پر غور کرتی تھی۔

اگر کوئی عدالتی حکم موجود نہ ہو اور کسی کو علاج یا کسی مجبوری کے تحت بیرون ملک جانے کی ضرورت ہوتی تھی تو یہ اجازت دے دی جاتی تھی۔ایگزٹ کنٹرول لسٹ ایف آئی اے کے رولز کے مطابق بنائی گئی ہے اور اس میں نام ڈالنے کا طریقہ کار بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست پر دو مزید لسٹیں بھی کام کرتی ہیں جنہیں ‘اسٹاپ لسٹ’ اور ‘بلیک لسٹ’ کہا جاتا ہے۔

اسٹاپ لسٹ میں ان افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں جنہیں کسی جرم کی بنا پر فوری طور پر روکنا مطلوب ہوتا ہے۔ اس میں عموماً کسی قتل، منشیات یا دیگر اسی نوعیت کے مقدمات میں مطلوب افراد ہوتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *