Why Karachi cannot be a province?تصویر سوشل میڈیا

گل بخشالوی

وفاقی اور صوبائی حکومت سندھ نے کراچی کے چھ اہم ترین مسائل کے حل کے لئے وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ۔ وزیرِ بلدیات ناصر شاہ وزیرِ تعلیم سعید غنی وفاقی وزراءاسد عمر، علی زیدی اور امین الحق پر مشتمل کمیٹی کا کہنا ہے کہ کراچی شہر کی خوبصورتی اور شہریوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر سہولیات فراہم کی جائیں گی کراچی والوں کا صاف پانی ملے گا جس سے ٹینکر مافیا سے نجات کے ساتھ گٹر کا گندہ پانی پینے سے بھی نجات ملے گی کوڑا کرکٹ ٹکانے لگایا جائے گا نالوں کی صفائی ہو گی اور بارش کا پانی سڑکوں پر کھڑا نہیں ہو گا لوکل ٹرین اور ائیر کنڈیشنڈ بسیں چلیں گی کمیٹی ممبران کی اس سوچ کوسوچتے ہوئے تو لگتا ہے کہ کراچی پیرس بننے جا رہا ہے لیکن یہ تو ایک خواب ہے جس کی تعبیر دور دور تک نظر نہیںآتی اس کی وجہ اپوزیشن اور حکمران جماعت کے سیاسی اور ذاتی اختلافات ہیں ذاتی مفادات ہیں جس کی وجہ سے موروثی سیاست دان پاکستان،استحکامِ پاکستان اور عوام کو نہیں سوچتے۔

کراچی کی ناگفتہ بے صورتِ حال پر سپریم کورٹ کے نوٹس نے کچھ ہلچل مچائی وفاقی حکومت نے بھی کچھ بہتر سوچنے کا اشارہ دیا تو گورنر راج کی آوازیں آنے لگیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے سندھ کے رہنماﺅں اور ایم کیو ایم کی آنکھیں کھلیں تو وفاقی حکومت سے ذاتی اور سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر کراچی کی بہتری کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے باہمی مشاورت سے چھ رکنی کمیٹی بنی اور اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ کراچی کے میئر کی مدت ختم ہونے پر باہمی مشاورت سے ایڈمنسٹریشن کا فیصلہ کریں گے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف کے مابین سیاسی طور پر کچھ بہتری اس وقت محسوس ہوئی جب آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن کے خلاف بیان دا غ دیا تو ایسے لگا جیسے پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف میں فاصلے کم ہونے جا رہے ہیں لیکن یہ خبر جب سیاسی پنڈتوں اور میڈیا تک پہنچی تو جیسے طوفان آگیا ایم کیو ایم نے کراچی کے الگ صوبے کا مطالبہ کر دیا پیپلز پارٹی کے بڑوں نے کہا فیصلہ دباﺅ میں منوایا گیا ہے تسلیم نہیں کرتے ایسے منفی سیاسی بیانات سے کراچی کے عوام ایک بار پھر مایوس ہو گئے تو وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا قوم اور وطن کے لئے تو ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں لیکن ساتھ چلنے والے اگر این،آر، او چاہتے ہیں تو وہ نہیں ملے گا ظاہر ہے ساتھ چلنے والے احتساب عدالت سے نجات چاہتے ہوں گے این آر ار کا صرف یہ مقصد نہیں لینا چاہیے کہ قومی مجرموں کو بیرون ملک جانے دیا جائے بلکہ این آر او کا مقصد ہے قوم کا جو پیسہ کھایا، جو اڑایا، اس کا حساب نہ مانگا جائے بلکہ ان کو صادق اور امین کا سرٹیفیکیٹ دیا جائے۔

وزیرِ اعظم کے دو ٹوک اعلان پر پیپلز پار ٹی کی سوچ بدلی اور پرانی تنخواہ پر کام کے لئے چھ رکنی کمیٹی کو فعال کرنے کا آغاز تو کر دیا لیکن کراچی میں ایک اور ضلع بنانے کا اعلان کر کے سندھ میں سیاست کا نیا میدان گرم کر دیا انتظامی معاملات کی بہتری کے لئے اگر نیا ضلع بنایا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن ایم کیو ایم والے تحریکِ انصاف کی آواز میں آواز ملا کر بول پڑے ہیں اگر نیا ضلع بن سکتا ہے تو صوبہ کیوں نہیں بن سکتا۔ سندھ کے سیاست دانوں کی ذاتیات کی جنگ میں کراچی کے شہری پریشان ہیں لیکن اگر کراچی کی صورتِ حال پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے اپنی خود پرست سیاست نہ بدلی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *