Why no statutory mechanism to regulate TV media like Press Council for print, Bombay HC asks Centreتصویر سوشل میڈیا

نئی دہلی: میڈیا ٹرائل کے خلاف مفاد عامہ میں داخل کئی پی آئی ایل کے سماعت کے دوران ممبئی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے سوال کیا کہ جس طرح پرنٹ میڈیا پر نظر رکھنے کے لیے پریس کونسل آف انڈیا کی شکل میں ایک قانونی محکمہ ہے ویسے ہی الیکٹرانک میڈیا پر نظر رکھنے کے لیے ایسا کوئی قانونی محکمہ کیوں نہیں ہے؟ آخر انہیں اتنی کھلی چھوٹ کیوں؟ میڈیا ٹرائل پر کوئی کارروائی نہ کے جانے کے حوالے سے عدالت عالیہ نے کہا کہ سپریم کورٹ اس ضمن میں کئی احکامات صادر کر چکی ہے لیکن کسی کو کوئی مطلب نہیں ہے۔

چیف جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس گریش ایس کلجکرنی پر مشتمل ایک ڈویژن بنچ نے مرکزی حکومت سے معلوم کیا کہ کیا براڈ کاسٹروں کے لیے کوئی قانونی مکینزم ہے؟ جب پرنٹ میڈیا کے لیے پریس کونسل ہے تو اسی طرح کا مکینزم الیکٹرانک میڈیا کے لیے کیوں نہیں ہے؟ وہ کیوں بے لگامہے۔

مرکزی حکومت کی جانب سے پیروی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل انیل سنگھ نے کہا کہ ایسانہیں ہے کہ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے اور کوئی کارروائی نہیں کرتی ۔وہ چینلوں کے خلاف موصول شکایات پر کارروائی کرتی ہے ۔اس ضمن میں دیگر مکینزم بھی ہیں۔

وہ اس امر کو بھی یقینی بناتی ہے کہ میڈیا کی آزادی برقرار رہے اور وہ میڈیا کی آزادی کا خیال رکھتی ہے۔ لیکن حکومت ہر چیز کو تو قابو نہیں کر سکتی۔ عدالت عالیہ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی موت پر میڈیا کوریج کے حوالے سے داخل کئی پی آئی ایل کی سماعت کر رہی تھی۔

یہ عرضیاں سماجی کارکن نلیش نولکھا،محبوب ڈی شیخ اور سبھاش چند چھبا سمیت کئی افراد نے وکیلوں راجیش انعامدار اور ششاوت آنند کے ساتھ سینئر وکیل دیو دت کامت کے توسط سے داخل کی ہیں۔عرضی گذاروں نے کہا کہ ٹی وی چینلوں کی رپورٹنگ سنسنی خیزیت کے سوا کچھ نہیں ہے جس سے معاملہ کی چل رہی سی بی آئی جانچ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

عدالت اس کیس میں میڈیا ٹرائل رکوانے کے لیے مہاراشٹر کے8سابق پولس افسران اور ایک ان جی او کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں کی بھی سماعت کر رہی تھی۔سینیئر وکیل کامت نے کہا کہ عدالت میں زیر سماعت مقدمہ پر میڈیا ٹرائل توہین عدالت ہے اور اس قسم کی حرکتیں سزا کی متقاضی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *