Why so much noise on Central vista constructionتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

بالآخر دہلی ہائی کورٹ نے اس پٹیشن کو خارج کر دیا جس میں مرکزی حکومت کے پروجکٹ ”سینٹرل وِسٹا“ کی مخالفت کی گئی تھی۔ ہائی کورٹ نے نہ صرف یہ کہ عرضداشت خارج کر دی بلکہ عرضی گزار پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عاید کیا۔ اس سے قبل جب اس معاملے پر سماعت ہوئی تھی تو حکومت نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ اس عرضی کو خارج کیا جائے اور عرضی گزار پر بھاری جرمانہ عاید کیا جائے۔ کیونکہ یہ عرضی سیاسی بد نیتی سے داخل کی گئی ہے اور سینٹرل وسٹا پروجکٹ کی تکمیل میں کرونا گائڈ لائن کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد شہری ترقیات کے وزیر ہردیپ پوری نے ایک پریس کانفرنس کرکے اپوزیشن پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اس پروجکٹ کے سلسلے میں غلط بیانی سے کام لیا جا رہا ہے اور جھوٹ پر جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس پروجکٹ پر تیرہ ہزار کروڑ روپے کا صرفہ آئے گا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے بیس ہزار کروڑ بتائے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اپوزیشن کے اس الزام کا کہ حکومت کو کرونا ویکسین اور ادویات پر خرچ کرنا چاہیے نہ کہ سینٹرل وسٹا پر، جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ویکسی نیشن کے لیے 35 ہزار کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ ویکسی نیشن کے لیے بجٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔

خیال رہے کہ نئی دہلی کے قلب میں واقع پارلیمنٹ ہاوس کے نزدیک راشٹرپتی بھون سے لے کر انڈیا گیٹ تک کی زائد از تین کلومیٹر کی سڑک پر عام دنوں میں سیاح اور گھومنے پھرنے کے شوقین افراد نظر آتے ہیں لیکن آجکل اس سڑک پر سیکڑوں مزدوروں کا قبضہ ہے اور وہاں مسلسل کھدائی کا کام چل رہا ہے۔ یہ مزدور وزیر اعظم نریندر مودی کے ڈریم پروجکٹ ”سینٹرل وِسٹا“ کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ جب دہلی میں لاک ڈاون نافذ کیا گیا اور لازمی خدمات کو چھوڑ کر تمام سرگرمیوں پر پابندی عاید کر دی گئی تو حکومت نے اس کام کو بھی لازمی خدمات کے دائرے میں شامل کر دیااور دہلی پولیس نے اشیاءاور مزدوروں کو لانے لے جانے کے لیے 180 گاڑیوں کے استعمال کی اجازت دے دی۔


کیا ہے سینٹرل وِسٹا؟

سینٹرل وسٹا وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک مخصوص منصوبہ ہے۔ 13 ہزار کروڑ روپے کے بجٹ والے اس منصوبے کی تکمیل کے بعد راشٹرپتی بھون، پارلیمنٹ ہاوس اور انڈیا گیٹ کے اس پورے علاقے کا نقشہ تبدیل ہو جائے گا اور گویا ایک نیا ”منی شہر“ عالم وجود میں آجائے گا۔ راشٹرپتی بھون سے انڈیا گیٹ تک کے علاقے کو ”راج پتھ“ کہا جاتا ہے۔ اس کے دونوں اطراف میں یہ تعمیراتی کام چل رہا ہے۔ راشٹرپتی بھون جس مقام پر تعمیر کیا گیا ہے اسے ”رائے سینا ہل“ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک اونچائی والا مقام ہے۔ اس پورے علاقے کا نقشہ، جو کافی بڑا ہے، انگریزی دور حکومت میں ایڈون لوٹینز نے تیار کیا تھا اسی لیے اسے ”لوٹینز زون“ بھی کہا جاتا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ ہاوس بھی انہی کا ڈیزائن کیا ہوا ہے۔ اس کی تعمیر تقریباً ایک صدی قبل 1921 سے 1927 کے درمیان ہوئی تھی۔ سینٹرل وسٹا منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کی ایک نئی عمارت تعمیر ہوگی جو مثلث نما ہوگی اور جس میں 1200 سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ کی گنجائش ہوگی۔ حکومت کا خیال ہے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر مستقبل میں اراکین کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ فی الحال لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے مجموعی اراکین کی تعداد 793 ہے۔ حکومت کے ذرائع کے مطابق موجودہ پارلیمنٹ ہاوس کافی پرانا ہو چکا ہے اور اس کی مضبوطی کے تعلق سے بھی شکوک و شبہات اٹھنے لگے ہیں۔ بعض اوقات اس میں کہیں کہیں مرمت بھی کرانی پڑی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے بعد اس پرانی عمارت کو میوزیم میں تبدیل کر دیا جائے گا اور راشٹرپتی بھون کے عالیشان مغل گارڈن کو بھی کسی اور مصرف میں استعمال کیا جائے گا۔

راشٹرپتی بھون، انڈیا گیٹ اور اس کے سبزہ زار پر مودی حکومت میں تعمیر کیا جانے والا نیشنل وار میموریل جوں کا توں برقرار رکھا جائے گا جبکہ عالیشان وگیان بھون کو مسمار کر دیا جائے گا۔اس منصوبے کے تحت نائب صدر اور وزیر اعظم کی مستقل رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ایک مشترکہ سینٹرل سکریٹریٹ بھی ہوگا۔ موجودہ ساوتھ بلاک اور نارتھ بلاک کی، جہاں متعدد وزارتوں کے دفاتر قائم ہیں، حیثیت تبدیل ہو جائے گی۔ نائب صدر اور وزیر اعظم کی رہائش گاہوں کی تعمیر علی الترتیب مئی 2022 اور دسمبر 2022 تک مکمل ہو جائے گی۔ سال 2022 ہندوستان کی آزادی کا 75 واں سال ہوگا۔ یہاں پر تمام مرکزی وزرا کی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی جائیں گی اور آس پاس کی متعدد عمارتوں کی نزئین نو کی جائے گی۔ موجودہ سکریٹریٹ میں صرف 22 وزارتوں کے دفاتر ہیں جن میں 41 ہزار کارکن کام کرتے ہیں۔ مذکورہ منصوبے کے تحت تمام51 وزارتوں کے دفاتر ایک ہی جگہ قائم ہوں گے۔ ہندوستان میں ابھی تک کوئی باضابطہ پی ایم ہاو¿س نہیں ہے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندر مودی تک سب اپنے سرکاری رہائشی بنگلے سے ہی اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی موجودہ رہائش گاہ لوک کلیان مارگ پر سات نمبر کے بنگلے میں ہے۔ پہلے اس سڑک کا نام ریس کورس روڈ تھا۔ لیکن وزیر اعظم مودی کے دور میں اس کا نام لوک کلیان مارگ کر دیا گیا۔

مرکزی حکومت نے منصوبے پر تنقید کرنے کی وجہ سے کانگریس پر نکتہ چینی کی ہے۔ اس سے قبل ہردیپ سنگھ پُری نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ سینٹرل وسٹا پروجکٹ پر کانگریس کا اعتراض عجیب و غریب ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ صرف اسی سال صحت عامہ پر حکومت کا بجٹ تین لاکھ کروڑ روپے ہے۔ ہم اپنی ترجیحات جانتے ہیں۔ ان کے مطابق کانگریس اس معاملے میں دوہرا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس نے یو پی اے کے زمانے میں ہی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی ضرورت بتائی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے شہری ترقی کی وزارت کو اس سلسلے میں ایک مکتوب بھی ارسال کیا تھا۔یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 10 دسمبر 2020 کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ میں اس کے خلاف اپیل دائر کرکے سنگ بنیاد کی تقریب روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔ لیکن عدالت نے اس پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا اور دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی تھی۔

جب کرونا کی دوسری لہر نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا تو ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ ایک مترجم انیا ملہوترہ اور ایک تاریخ داں اور ڈاکومنٹری فلم ساز سہیل ہاشمی نے سپریم کورٹ کے انکار کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ عرضی گزاروں کے وکیل سدھارتھ لوتھرا ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کرونا کے موجودہ حالات کے پیش نظر اگر سینٹرل وسٹا کے پروجیکٹ کو چھ ہفتوں کے لیے ٹال دیا جاتا ہے تو کچھ نہیں بگڑے کا۔ جب انڈین پریمیر لیگ کو ملتوی کیا جاسکتا ہے تو اسے کیوں نہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ صحت کی ایسی بحرانی صورت حال میں کوئی تعمیر کسی طرح لازمی خدمات کے زمرے میں کیسے آ سکتی ہے۔ اس سے کام کرنے والوں کو خطرہ لاحق ہے اور صحت نظام پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔عرضی گزاروں کی اس دلیل پر کہ وہاں جو مزدور کام کر رہے ہیں ان کو کرونا انفکشن کا خطرہ ہے، حکومت نے اپنے تحریری جواب میں کہا تھا کہ دہلی میں لاک ڈاون نافذ ہونے سے پہلے سے ہی وہاں پر 400 مزدور کام کر رہے ہیں اور وہیں پر ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔ اب جبکہ دہلی ہائی کورٹ نے اس کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے تو توقع کی جانی چاہیے کہ اس پر ہونے والا سیاسی ہنگامہ ۷ختم ہو جائے گا۔

sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *