ابوجا( اے یوایس ) افریقہ کے ملک نائیجریا میں ایسے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں جس میں حکام نے ایسے افراد کو بچایا ہے جنھیں ان کے اپنے گھر والوں نے قید کر دیا تھا۔ ان واقعات کے سامنے آنے سے یہ بات مزید اجاگر ہوتی ہے کہ والدین کا اپنے بچوں کو نظر انداز کرنا کتنا عام معمول ہے اور اس سے ذہنی صحت کے کتنے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔حکام نے جن افراد کو بچایا ہے ان میں سے کئی ذہنی مسائل کا شکار تھے اور ان کے پیر بیڑیوں سے بندھے ہوئے تھے اور انھیں ایک چھوٹے سے کمرے میں قید رکھا جاتا تھا جہاں وہ کھاتے، سوتے اور رفع حاجت کے لیے بھی اسی کو استعمال کرتے۔ملک کے مغربی حصے میں واقع ریاست کونو میں ایک 32 سالہ شخص کو اس کے والدین نے سات سال تک گھر کے گیراج میں قید رکھا تھا۔اس کے علاوہ ایسے بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں جس میں بچوں کو ان کے سوتیلے والدین یا رشتے داروں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ستمبر میں ہونے والے ایک واقعے میں ایک سات سال کے بچے کی سوتیلی ماں کو حراست میں لینا پڑا کیونکہ وہ بچہ گھر میں مردہ حالت میں ملا تھا اور اس کے جسم پر سخت تشدد کے نشانات تھے۔سوتیلی ماں پر ابھی تک کسی قسم کے کوئی الزامات نہیں لگائے گئے ہیں۔
نائیجریا میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن آج کل زیادہ توجہ ملک کے شمالی حصے پر دی جا رہی ہے جہاں اگست کے مہینے میں ایک 11 سالہ بچے کو مرغی کے دڑبے میں بند رکھا گیا تھا اور اس کے باپ اور سوتیلی ماں گھر میں سکون سے رہ رہے تھے۔اس بچے کی دڑبے میں رہنے والی تصاویر کے سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں طیش پھیل گیا جب انھوں نے دیکھا کہ وہ چھوٹا سا بچہ مرغیوں اور بٹیروں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔نائیجریا میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس نیٹ ورک کے سربراہ ہرونا ایاگی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد سے ہمیں مسلسل اطلاعات ملنا شروع ہو گئیں۔ایاگی کہتے ہیں کہ ان واقعات میں یہ ظاہر ہوا کہ یہ وہ بچے تھے جو اپنی ماؤں کے ساتھ نہیں رہتے تھے۔ملک کے دارالحکومت ابوجا میں دو بچوں کو بیت الخلا سے بازیاب کیا گیا۔ مبینہ طور پر ان کی سوتیلی والدہ روزانہ ملازمت سے واپسی تک انھیں وہیں بند رکھتی تھیں۔بدتمیزی کرنے والے بچوں کی کچھ تصاویر کسی ہالی ووڈ فلم کی تصاویر کی طرح دکھائی دیتی ہیں،جن میں برا سکوک کرنے والی سوتیلی والدہ کے رسمی کردار سے زیادہ تر نائیجیرین واقف ہیں، حالانکہ بہت ساری سوتیلی مائیں دوسری عورت کے بچوں کا بہت اچھا خیال رکھتی ہیں۔
حکام کے مطابق کونو میں ایک سات سالہ بچی کو مبینہ طور پر اس کی سوتیلی ماں نے پیٹا، جلایا اور بھوکا رکھا۔کونو میں بچائی گئی وہ بچی اور کئی دوسرے بچے اب سرکاری نگہداشت کے گھروں میں ہیں اور ان کا علاج اور مشاورت کی جا رہی ہے۔ جبکہ والدین اور سرپرستوں میں سے کچھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن ابھی تک انھیں عدالت میں چارج نہیں کیا گیا ہے۔2003 میں بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والا ایک وفاقی قانون ریاست کو یہ حق دیتا ہے کہ اگر انھیں کسی بچے کے ساتھ ’نظر انداز کرنے یا برے سلوک‘ کا شبہ ہو تو وہ اسے سرکاری نگہداشت میں لے سکتے ہیں۔لیکن کونو سمیت 11 شمالی ریاستوں میں ابھی تک یہ قانون پاس نہیں ہوا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 18 سال سے کم عمر کے کسی بچے کی تعریف کرنے کی مخالفت کی گئی ہے جس کی وجہ سے اس خطے میں ہونے والے بچوں کی شادیوں پر پابندی لگ سکتی ہے۔ کچھ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ایک بار جب لڑکا یا لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو وہ بالغ ہے اور ان کی شادی کی جا سکتی ہے۔یہ تنازع 11 ریاستوں میں قانون سازی کی منظوری کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے کسی بچے کے ساتھ مشتبہ سلوک کے معاملے میں ریاست کے لیے مداخلت کرنا مشکل بن جاتا ہے۔اس کے علاوہ شمال میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا اور جس آسانی کے ساتھ ایک شوہر اپنی اسلامی شادی کو ختم کرسکتا ہے، اسے صرف اپنی بیوی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے بچے اپنی حقیقی ماؤں کے ساتھ نہیں رہتے ہیں یا ایسے ٹوٹے ہوئے رشتوں والے گھر میں رہتے ہیں جہاں شاید ان کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔
خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے مہم چلانے والی تنظیم واٹکلیف کی سربراہ امیونگونگ لاڈپو سانوسی کا کہنا ہے ’ان بچوں کے خلاف تشدد کو عام سمجھا جاتا ہے یا قبول کر لیا جاتا ہے، جو کہ اکثر بدنیتی یا انسانی حقوق کے متعلق جہالت کا مظہر ہے‘۔وہ چاہتی ہیں کہ ’کسی بھی انسان کے خلاف تشدد اور رپورٹنگ کا طریقہ کار سمجھنے کے لیے‘ آگاہی مہم چلائی جائے۔کونو میں 30 سالہ بچے کو ان کے والدین کے گیراج سے بازیاب کرایا گیا، پڑوسیوں نے بتایا کہ انھیں مبینہ طور پر ذہنی مریض ہونے کے الزام میں سات سال سے یہاں بند رکھا گیا تھا۔ جب انھیں بازیاب کرایا گیا وہ بمشکل چلنے کے قابل تھے۔ان کی ٹانگیں گھٹنوں سے ٹیڑھی ہو چکی تھیں اور ان کے سخت کمزور جسم کو سہارا دینے کے لیے بھی کمزور تھیں۔کونو میں ایک اور کیس میں، ایک 55 سالہ شخص کو بغیر دروازے یا کھڑکی والے کمرے میں بند پایا گیا۔ ان کا ایک پاؤں لکڑی کے ایک بڑے تنے سے لوہے کی زنجیر کے ذریعے بندھا تھا۔30 سالوں سے ان کے اہل خانہ نے انھیں بند کر رکھا تھا کیونکہ وہ ذہنی مریض تھے۔ بازیابی کے بعد انھیں روگو جنرل ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ ہسپتال کے ایک ڈاکٹر لوئس نیوکے نے کہا کہ وہ ’غیر معقول برتاؤ اور نفسیاتی بیماری‘ سے دو چار رہے ہیں۔
ایک 55 سالہ شخص کو بغیر دروازے یا کھڑکی والے کمرے میں بند پایا گیا۔ ان کا ایک پاؤں لکڑی کے ایک بڑے تنے سے لوہے کی زنجیر کے ذریعے بندھا تھانائیجیریا میں ذہنی مریضوں کی دیکھ بھال کوئی آسان کام نہیں جس کی ایک بڑی وجہ اس بیماری سے وابستہ بدنامی ہے۔کچھ برادریوں میں ذہنی بیمار افراد سے تعلقات ختم کر دیے جاتے ہیں اور ذہنی مریضوں کو ’پاگل‘ پکارا جاتا ہے۔ ایسے افراد کو گھروں سے نکال دیا جاتا ہے اور وہ پھٹے ہوئے کپڑوں میں سڑکوں پر رہنے اور کوڑے کے ڈھیروں سے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ماہر نفسیات کی یونین کے سربراہ، ڈاکٹر تائیو لاطیف نے بی بی سی کو بتایا ’شمال میں ہونے والے واقعات نائیجیریا کی عکاسی کرتے ہیں۔ ذہنی مریضوں کو قید میں رکھنے اور ان سے بدسلوکی کرنے کا یہ معاملہ دراصل پورے ملک میں وسیع پیمانے پر ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘علاج کے متلاشی افراد کی تعداد کے بارے میں تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن 200 ملین آبادی والے ملک میں 300 سے کم نفسیاتی ماہرین کے ساتھ، عیسائی اور مسلمان دونوں مذاہب کے خاندان اکثر روایتی حکیموں اور روحانی پیشواؤں سے علاج کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر اولوسن اوگونوبی کا کہنا ہے ’زیادہ تر افراد ذہنی بیماری کو ایک روحانی پریشانی کے طور پر دیکھتے ہیں، لہذا وہ روحانی پیشواؤں اور روایتی حکیموں سے مدد لیتے ہیں۔
‘نائیجیریا کی وزارت صحت کی 2013 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم از کم 10 فیصد آبادی کو عام ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، اس تعداد میں سے 10 فیصد سے بھی کم افراد کو دیکھ بھال تک رسائی حاصل ہے۔اگرچہ صحت کے شعبے میں ذہنی صحت کی سہولیات کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک بھر میں اعصابی اور ذہنی صحت کے 15 سے بھی کم مراکز موجود ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے ایسی سہولیات تک رسائی اور بھی مشکل ہے۔لیکن جن علاقوں میں اعصابی اور ذہنی صحت کی سہولیات میسر ہیں وہاں بھی اپنے پیاروں کو علاج کے لیے ایسے مرکز لیجانے کی بدنامی، بہت سے خاندانوں کو ایسا کرنے سے روکتی ہے۔ڈاکٹر لاطیف کہتے ہیں ’ذہنی صحت سے متعلق خرافات اور غلط فہمیوں کی وجہ سے زیادہ تر لوگ نہیں چاہتے کہ کوئی انھیں نفسیاتی امراض کے سپتالوں میں داخل ہوتے ہوئے دیکھے۔‘وہ پوچھتے ہیں ’بدنامی کے ڈر سے لوگ اس بیماری کا اعتراف نہیں کرتے۔ انھوں نے اسے بیماری کے طور پر کبھی قبول ہی نہیں کیا تو وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مجھے ذہنی بیماری ہے؟
