فتح محمد ندوی

اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن کی نیت کسی بھی حملے اور نقصان کی صورت میں یہی ہوتی ہے کہ اپنے دشمن کو ذہنی، جسمانی، معاشی اور معاشرتی طور اتنا مفلوک الحال اور کمزور کردیا جائے کہ استحکام تو دور کی بات اس کو صرف سنبھلنے میں صدیاں لگ جائیں۔

افغانستان کے حوالے سے اس وقت یہ گفتگو کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے،انیس سال پہلے جب امریکا اور اس کےاتحادیوں نے افغانستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کا جو مذموم ارادہ کیا تھا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلیے نہتے افغانیوں پر یورش کی تھی،اس وقت کی صورتحال میں کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ یہ جنگ اتنی طول ہوجائے گی اور امریکہ جیسی سپر طاقت کے سامنے افغانستان اپنے وجود کو بچا پائے گا۔ لیکن اب آپ کو یہ معلوم ہو گیا کہ کس کا وجود بچاہے اور کس کا ختم ہوا ہے۔اور اپنے وجود کو بچانے کے لیے کس کی انا اور انانیت خاک میں ملی۔

یہ سوال ذہن میں بار بار آتا ہے کہ دنیاکی بڑی طاقتیں افغانستان پر کیوں حملہ آور ہوتی ہیں؟ دوسرا سوال پھر وہ ناکام کیوں ہوتی ہیں؟۔حملے کی جو اہم وجوہات اور اسباب ہیں وہ بالکل صاف ہیں کہ افغانستان کو مشرق وسطی کی مرکزیت حاصل ہے یعنی چائنا سے لیکر یوروپ تک خشکی کا تمام راستہ افغانستان سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔اسی طر ح افغانستان وسط ایشیا کو جنوبی ایشیا سے جوڑتا ہے اس اہمیت کی بنیاد پر طاقتور قومیں اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ مشرق وسطی کو آسانی سے کنٹرول کیا جا سکے اور اپنا معاشی استحکام یہاں سے مضبوط کیا جا سکے۔دوسرے سوال کا جواب یہاں وہ ناکام کیوں ہوجا تی ہیں۔دراصل افغان قوم کی لغت میں ڈراور خوف جیسے الفاظ سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ ان کی لغت میں جواں مردی، بہادری، جوش اور جذبہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔وہ فاتح قوم ہے اور آج تک اس تمغے کو کوئی بڑی سے بڑی طاقت ان سے چھین نہیں پائی اور جو اس فاتح تمغے کو ان سے چھین نے کوشش کرتاہے تو وہ ذلت و رسوائی اپنا مقدر بنا لیتا ہے۔۔روس سپر پاور ہونے کے باوجود دس سال تک افغانستان کے کھنڈرات میں سر پھوڑ نے کے بعد جب واپس ہواتو پوری دنیا میں اس کی جگ ہنسائی ہوئی اور آج تک اس کی پیشانی پر افغانستان سے شکست کی ذلت کا نشان باقی ہے۔ایک مصنف نے اس وقت کی روداد لکھتے ہوئے ایک چشم دید واقعہ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی روسی فوجی زخمی پڑا ہوا کسی افغانی عورت کو مل گیا تو وہ عورت بجائے رحم اور ترس کے پتھر سے اس زخمی فوجی کا سر پھوڑ کر ہلاک کردیتی تھی۔جس ملک کی عورتوں کا یہ جذبہ ہو اس کے جوانوں کو میدان میں کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟

در اصل قومیں اپنی بقا اور آزادی کے تحفظ کے لیے پہاڑ وں جیسی طاقت سے ٹکرا جاتی ہیں۔ آگ اور خون کے دریا ان کے لیے عبور کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ موت سے جنون کی حد تک ان کو محبت ہوجاتی ہے اورجس قوم کو موت سے محبت اور شہادت سے پیار ہوجائے اس قوم کو ہتھیاروں سے میدان جنگ میں شکست دینا کوئی آسان کام نہیں۔وہ قومیں یقیناً آزادی کی طلب گار ہوتی ہیں اور آزادی لیکر ہی دم لیتی ہیں۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبے اور غیرت سے لڑتی جاتی ہیں۔ایک طرف توپیں اور ہر طرح کے جدید ہتھیاروں سے مسلح فوج دوسری طرف آزادی کے متوالوں کا ہجوم خالی ہاتھ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان کے سینوں کے سامنے دشمنوں کی گولیاں کم پڑ جاتی ہیں۔ اور آزادی کی طالب قوم کبھی بھی دشمن کی گولی پیٹھ پر نہیں کھاتی بلکہ ان کے سینے دشمن کی توپوں کے سامنے رہتے ہیں۔

دوحہ کی کامیابی پرآپ خوش مت ہوں۔ بلکہ احتساب کیجیے۔آپ کے پاس خوش ہونے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ دشمن کی چالاکیاں اور حربے بدلتے رہتے ہیں۔ پھر دشمن نے اپنا کام پورا کرلیا۔ دشمن کا مقصد یہ ہی تو ہے کہ آپ کو بکھیر دیا جائے اور اتنا توڑ دیا جائے کہ سمیٹنے میں صدیاں لگ جائیں۔ اب آپ سوچیے کہ آپ کا خوش ہونا کہاں تک درست ہے؟ ایسی خوشی جس میں آپ اپنے مقصد سے ابھی بہت دور ہیں۔ یہ خوشی نہیں بلکہ آپ اپنی ناکامی کی دلیل ہے۔

آپ سوچیے اور سنجیدگی سے سوچیے کہ امریکہ افغانستان سے کیوں نکلناچاہتا ہے کیوں بھاگنا چاہتا ہے۔اس کی کوئی مجبوری. مفاد یا اور دوسری وجوہات ہیں۔جو اس کو افغانستان سے جانے پر اب مجبور کر رہی ہیں۔ در اصل حالات کا جائزہ لینے سے یہ پتا چلتاہے کہ اس وقت امریکہ معاشی اعتبار سے بہت کمزور ہوچکا ہے۔ نوم چوسکی جو امریکہ کے مشہور دانشور تجزیہ نگار اور مورخ ہیں ان کا ایک انٹرویو میں نے پڑھا تھا جس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ امریکا اپنی جمہوری تاریخ میں کبھی معاشی اعتبار سے اتنا کمزور نہیں ہوا جتنا اب ٹرمپ کے دور میں ہوگیا۔ امریکی لوگوں میں اس بات کو لیکر کافی تشویش پائی جارہی ہے۔ ہو سکتا ہے امریکہ میں وسط مدتی انتخابات میں ٹرمپ کے خلاف انتخابی تشہیر کا اس کو موضوعبھی بنایا جائے۔دوسری بات چائنا بہت تیزی کے ساتھ معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہا۔ اور امریکا اسی تیزی کے ساتھ معاشی زوال کی طرف گامزن ہے۔ اس پس منظر میں امریکا کسی اور پلان کی طرف جانا چاہتا ہے مثال کے طور امریکہ نے آج تک جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں وہ اپنے ملک سے باہر کسی دوسرے ملک میں لڑی ہیں۔ لیکن وہ اب چونکہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہے کہ کسی دوسری زمین پر جنگ لڑ سکے۔ اس لیے اب اس نے جنگ کا کوئی اور طریقہ استعمال کرنے کا پلان بنایا ہے۔ وہ کیا ہو سکتا ہے اس پر تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن ماضی میں اس نے بڑی چالاکی سے پہلے عراق اور ایران کو لڑایا پھر ع راق کے ذریعے کویت پر حملہ کرایا۔ اس کے بعد عراق جب ملبہ کا ڈھیر ہوگیا۔ تو اس پر خود حملہ کردیا۔ اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

یہ تمام قیاس اپنی جگہ لیکن جس نے کروڑوں لوگوں کو زندگی سے محروم کردیا ہو اس کو کیسے تاریخ معاف کرسکتی ہے۔ ہر ظالم کو اپنے ایک ایک ظلم کا حساب دینا ہوگا۔ بغیر ظلم کے حساب دیے ہوئے کوئی بھی ظالم دنیا سے نہیں جا سکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *