لندن: (اے یو ایس ) شام کے صدر بشار الاسد کی اہلیہ اور ملک کی خاتون اول “اسماءالاسد” کی برطانوی شہریت چھن جانے کا اندیشہ ہے۔
لندن پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا ہے جس کے نتیجے میں 45 سالہ اسماء کے خلاف غائبانہ عدالتی کارروائی عمل میں آ سکتی ہے۔ شامی خاتون اول کے خلاف الزامات کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے “10 برس کے دوران دہشت گرد کارروائیوں پر اکسایا اور ان کی حوصلہ افزائی کی”۔ اس کے سبب جاری خانہ جنگی میں اب تک 5 لاکھ سے زیادہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
علاوہ ازیں 1.2 کروڑ شامی (ملک کی تقریبا نصف آبادی) اپنے گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہیں۔اسماءکے والدین شامی ہیں جنہوں نے اپنے ملک سے ہجرت کر لی تھی۔ والد ڈاکٹر فواز الاخرس لندن میں ایک ہسپتال میں ماہر امراض قلب ہیں۔ والدہ سحر عطری برطانیہ میں شامی سفارت خانے کی سابقہ ملازمہ ہیں۔ اسماءبرطانیہ میں پیدا ہوئیں اور جوانی کے چند برس تک وہاں وقت گزارا۔ انہوں نے لندن کے کنگز کالج سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن مکمل کی۔
سال 2000ءمیں شام کے صدر سے شادی کے بعد وہ دمشق منتقل ہو گئیں۔دمشق میں اسماءکا کردار اپنے 3 بچوں کی دیکھ بھال تک محدود نہیں رہا۔ انہوں نے سماجی تقریبات میں شرکت کی۔ سرکاری فوج کے زخمیوں کا معاملہ دیکھا۔ شامی فوج کی سپورٹ کے لیے خطاب کیے۔ وہ ہی فوج جس نے اپنے ملک میں ہسپتالوں اور اسکولوں کو بیرل بموں ، فضائی حملوں اور توپ خانوں کے ذریعے وحشیانہ حملوں کا نشان بنایا۔
اگر برطانیہ میں اسماءالاسد کے خلاف عدالتی کارروائی عمل میں آئی تو شام کی خاتون اول کا نام ان شخصیات کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جنہوں نے اپنے ملک میں تشدد برپا کیا اور برطانوی عدالت نے ان کے خلاف مقدمہ چلایا۔ان شخصیات میں چلی میں 17 برس حکومت کرنے والے آمر جنرل اوگسٹو بینوشے اور لائبیریا کے سابق صدر چارلس ٹیلر شامل ہیں۔ ٹیلر کو برطانوی عدالت نے 50 برس قید کی سزا سنائی۔
برطانوی اخبار ٹائمز کے مطابق اسماءالاسد کے خلاف انٹرپول کے ریڈ وارنٹ جاری ہونے کا امکان ہے۔ اس طرح شام کی خاتون اول بیرون ملک سفر سے قاصر ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ کسی بھی ملک کا رخ کرنے کی صورت میں گرفتاری اور ہتھکڑیاں ان کی منتظر ہوں گی۔لندن پولیس کے زیر انتظام “جنگی جرائم کے یونٹ” کو گذشتہ برس 31 جولائی کو ایک بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ کا تعلق شام میں جاری تنازع سے ہے۔ پولیس نے اس کا جائزہ لینا شروع کیا۔
بعد ازاں ابتدائی تحقیقات کا دروازہ کھول دیا گیا۔ متعلقہ برطانوی حکام کو اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ “شام کی خاتون اول” شام کی مسلح افواج کو بھرپور طریقے سے سپورٹ کرتی رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق شامی فوج عوام کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث رہی ہے۔ برطانوی پولیس کے متعلقہ یونٹ کے سربراہ کیڈمین ٹوبی کے مطابق اسما الاسد کے خلاف عدالتی کارروائی کے لیے مضبوط بنیاد موجود ہے۔
