واشنگٹن🙁 اے یو ایس ) یہ توقعات کہ ایران کی جوہری صلاحیتوں کو محدود کرنے کے لیے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے معاملات طے پاگئے ہیں، اب ماند پڑ چکی ہیں۔ گذشتہ روز امریکی وزارت خارجہ نے انتباہ دیا کہ اگر تہران اپنی ضد نہیں چھوڑتا تو پھر امریکہ’ پلان بی’ کی طرف جائے گا۔
ابھی ایک ہفتے پہلے ہی کی بات ہے کہ واشنگٹن میں عہدیداروں کو امید تھی کہ ایک سال کے مذاکرات کے بعد اب یہ معاہدہ دسترس میں ہے جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے حصول سے روکنا ہے۔16لہ مارچ کو محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا تھا کہ ہر چند کہ ہم ابھی معاہدہ کے قریب نہیں پہنچے ہیں تاہم ہمارے خیال میں ہم ممکنہ سمجھوتے کے قریب ہیں۔’ ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بقیہ مسائل طے کئے جا سکتے ہیں۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ تہران اتوار کے روز نئے فارسی سال، ‘نوروز’ کی تقریبات کے بعد معاہدے پر پہنچ جائے گا۔لیکن پھرا س کے بعد اچانک ہی لب و لہجہ بدل گیا اور پیر کے روز نیڈ پرائس نے کہا کہ میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ کوئی معاہدہ نہ تو ناگزیر ہے اور نہ یقینی۔ نیڈ پرائس نے یہ کہنے سے انکار کرتے ہوئے کہ بات چیت میں تعطل پیدا ہو گیا ہے کہا کہ اگر معاہدہ نہ ہو سکا اور ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کے منصوبے نہ رکے تو امریکہ کے پاس ہنگامی منصوبے موجود ہیں۔
