Will Imran Khan be benefitted by social media support during electionsتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد:(اے یو ایس )سابق وزیرِ اعظم عمران خان وزارتِ عظمٰی سے الگ کیے جانے کے بعد سے عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے اب اعلان کیا ہے کہ نئے انتخابات تک ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ عمران خان کے حالیہ جلسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا وہ عام انتخابات میں اپنی اس ‘مقبولیت’ سے استفادہ کر سکیں گے یا نہیں؟تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور ان سے ہمدری کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے لیکن یہ دیکھنا اہم ہے کہ آیا سابق وزیرِ اعظم اپنے طرز سیاست سے کوئی فائدہ اٹھاسکیں گے؟سینئر تجزیہ کار مظہرعباس کہتے ہیں جس دن سے عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ہے وہ سڑکوں پر ہیں اور وہ اس وقت مومینٹم بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول عمران خان کو اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے کا فائدہ انتخابات میں ہو گا تاہم عام انتخابات میں تاخیر ہوئی تو ان کے لیے اپنے ہمدردوں کا ٹیمپو برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ عمران خان جلسوں اور احتجاج کے ساتھ ساتھ ووٹرز کو متحرک رکھنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں لیکن ان کے لیے اصل امتحان اپنے حامیوں کے ساتھ ساتھ اس نیوٹرل ووٹر کو بھی حامی بنانا ہے جو انتخابات سے قبل سیاسی جماعت کی مہم کو دیکھ کر ووٹ دینا کا فیصلہ کرتا ہے۔

سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان مزید پاپولر ہوئے ہیں، لیکن انہیں اپنی مقبولیت کے ساتھ ساتھ آئین اور قانون کا بھی سامنا ہے۔ان کے بقول تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ سے متعلق کیس کا فیصلہ آنے والا ہے اور وہ جلسے کر رہے ہیں۔ بڑے جلسوں کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آئین و قانون سے بالا تر یا اس کی گرفت سے مبرا ہو گئے ہیں۔سینئر تجزیہ کار اور کالم نگار سلمان عابد کے خیال میں اس وقت سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ اگر کسی جماعت کا بیانیہ مقبول ہے تو وہ تحریکِ انصاف ہے ۔سلمان عابد کے مطابق تحریکِ انصاف کے برعکس مسلم لیگ(ن) یا پیپلز پارٹی کا سوشل میڈیا پر آنے والا ورکر عام طور پر لوئر کلاس یا مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر عمران خان کا بیانیہ پروان چڑھ رہا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ کئی روز سے پاکستان میں’ امپورٹڈ حکومت نامنظور’ کا ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا ہے جس میں تحریکِ انصاف کے حامیوں کی بڑی تعداد اپنی رائے ظاہرکر رہی ہے۔ دریں اثنا سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے غیر ملکی مراسلے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں کھلی سماعت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اداروں نے قوم کی آزادی اور خودداری کے لیے کردار ادا نہ کیا تو ہم غلاموں جیسی ہی زندگی گزارتے رہیں گے۔

ہفتے کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آج اگر سپریم کورٹ نے اسٹینڈ نہ لیا تو کوئی بھی پاکستان کا وزیرِ اعظم غیر ملکی مداخلت کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکے گا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو اسی وقت تحقیقات کرانی چاہئیں تھیں جب ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی تھی کہ پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازش ہوئی۔عمران خان نے دعویٰ کیا کہ جمعے کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے نے تصدیق کر دی کہ میری حکومت کے خلاف بیرونی مداخلت ہوئی۔ا±ن کا کہنا تھا کہ سچ ہمیشہ سامنے آتا ہے، یہ واضح ہو گیا کہ ملک کے وزیرِ اعظم کو دھمکی دی گئی اور سازش کی گئی۔سابق وزیرِ اعظم نے ایسے وقت میں پریس کانفرنس کی ہے جب جمعے کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کے خلاف کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی تھی۔عمران خان کا کہنا تھا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے مراسلے آتے رہتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اس طرح کی دھمکیاں نہیں دی جاتیں۔ ماضی میں اس طرح کی دھمکیاں ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف کو دی گئیں۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ا±نہوں نے ملک بھر میں اپنی تنظیموں کو اسلام آباد کی حقیقی آزاد ی کے لیے مارچ کی ہدایت کر دی ہے جس کی کال وہ جلد دیں گے۔ا±ن کا کہنا تھا کہ پشاور، کراچی اور لاہور کے جلسوں میں جس طرح لوگ آئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ بیدار ہو چکے ہیں اور وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے باہر نکلنے کو تیار ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ کابینہ میں 60 سے 70 فی صد لوگ ضمانت پر ہیں اور ان کے نام ای سی ایل پر ہیں۔ اس لیے کہ ان کی جائیدادیں باہر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *