پاکستان کی فوج اپنے سیاسی و اقتصادی اختیارکو جائز بنائے رکھنے کے لیے ہمیشہ سے ہی ہندوستان کے ساتھ اپنی دشمنی کو ہتھیار بنائے ہوئے ہے اور خود کو لعنت ملامت اور تنقید سے بالاتر بھی رکھتی ہے۔یہ بات دیگر ہے کہ اس نے کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی لیکن ملک کی تاریخ کی نصف مدت میں پاکستان پر حکومت کرکے اور باقی نصف مدت میں منتخب عوامی حکومت پر گرفت رکھ کر جمہوریت کے خلاف جنگ ضرور جیتی رہی ہے۔فوجی جنرلوں نے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو 2018میں پارلیمانی انتخابات میں دھاندلی کر کے مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہونے کا سنہرا موقع دیا ۔ اور اب وہی جنرل پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین اور مفلوج حکومت کا فائدہ اٹھا کر پس پردہ ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ لیکن حالیہ ایام میں فوج کو سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔ہمیشہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے والی حزب اختلاف کی منتشر جماعتوں نے پہلی بار زبردست سیاسی حکمت عملی وضع کی اور عمران حکومت کے خلاف زبردست محاذ کھول دیا ۔اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈٰی ایم) کی شکل میں اتحاد کر کے وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبہ کرتے ہوئے خان کی حکومت کے خلاف زبردست ریلیاں شروع کر دیں جس سے بلا شبہ ایوان اقتدار ہل کر رہ گیا ہے ۔ تاہم فوجی جنرلوں کی حمایت حاصل ہونے کے باعث ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان تحریک انصاف پارٹی حکومت پر کوئی آنچ آئے گی لیکن اس بار احتجاجی ریلیوں کا انداز ہی نرالا ہے اور اس بار نشانہ خود فوج ہے۔ زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ فوج ہی خان کی آڑ میں نہ صرف حکومت چلا رہی ہے بلکہ ملک کی اقتصادی و سیاسی دگرگوں حالت کی بھی وہی ذمہ دار ہے۔
اس وقت سیاسی لیڈروں کا غصہ کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا ہے کیونکہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اہم سیاسی لیڈران پاکستان پر فوج کی اجارہ داری اور حکومتی کام کاج میں ا سکے عمل دخل کے خلاف بے خوفی سے میدان میں کود پڑے ہیں ۔ سیاسی رہنماو¿ں کے موقف میں اس غیر معمولی تبدیلی سے آخر کار سیاسی اقتدار پر فوج کی آہنی گرفت خطرے میں پڑ ہی گئی۔یہ دیکھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ پاکستان میں اصل طاقت کس کے پاس ہے۔ خان وزیر اعظم تو ہیں لیکن سارے کام اور اقدامات فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا کے اشاروں پر ہی ہوتے ہیں۔ جنرل باجوا ہی چین اور سعودی عرب جیسے اہم حلیف ممالک کے ساتھ پاکستان کے خارجہ تعلقات کا آزادانہ تعین کرتے ہیں اور پڑوسی ممالک افغانستان اور ہندوستان کےساتھ کسی بھی معاہدے کے حوالے سے فیصلہ وہی کرتے ہیں، وہی اعلیٰ صنعتکاروں سے بات کرتے ہیں، یہاں تک کہ کوویڈ19-جیسی ہولناک وبا پر قابو پانے کے لیے ملک گیر پیمانے پر لاک ڈاو¿ن کرنے جیسے اہم خانگی پالیسی فیصلے بھی وہی کرتے ہیں۔ دا خلہ ، خزانہ، تجارت، قومی سلامتی اور منشیات کی روک تھام سے متعلق وزارتوں سمیت خان کی کابینہ میں اہم اور کلیدی عہدوں پر انہی افراد کا تقرر کیا جاتا ہے جن کے فوج سے گہرے اور قریبی مراسم ہوتے ہیں۔
یہاں تک کہ فعال بر سر کار فوجی افسران تعمیرات عامہ اور ڈزاسٹر منجمنٹ کو ہدایت جاری کرنے والی عوامی زمرے کی اہم تنظیموں کے سربراہ بنا دیے جاتے ہیں۔ فوج کے براہ راست اقتدار کا سلسلہ 2007میں ایک جمہوری حکومت کو بامعنی نتقلی اقتدار کے ساتھ ہوا۔ایک مقبول تحریک نے تانا شاہ جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے حکومت سازی کی ۔پہلے آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر میاں محمد نواز شریف کی قیادت والی پاکستان مسلم لیگ نواز نے حکومت تشکیل دی۔پی پی پی نے 2013میں پر امن طریقہ سے اپنی سخت دشمن پی ایم ایل این کو حکومت منتقل کر دی۔اور دونوں ہی پارٹیوں نے اپنے سیاسی مفاد کی تکمیل کے لیے فوجی دروازے پر دستک دینے کی اپنی پرانی عادت ترک کردی۔ یہ بھی کوئی کم اہم بات نہیں ہے کہ 2010میں دونوں پارٹیوں نے متحد ہو کر آئین میں 18ویں ترمیم منظور کر لی۔جس سے صوبوں کے انتظامی اور مالی اختیارات عدم مرتکز کر کے صدر کے وسیع استحقاق و اختیارات ،جس کی رو سے وہ کسی بھی منتخب حکومت کو من مانے ڈھنگ سے برطرف کر سکتا تھا،محدود ہو گئے اوروزیر اعظم کے فوجی سربراہوں اور صوبائی گورنروں کا تقرر کرنے کے اختیارات بحال کر دیے۔یہ بھی کوئی کم بات نہیں ہے کہ آئین کی دفعہ 6میں ترمیم کی گئی جس کی رو سے فوجی بغاوتوں کو نہایت درجہ کی غداری ،جس کی سزا موت ہے، قرار دیا گیا اور عدلیہ سے بغاوتوں کو قانونی حیثیت دینے کے اختیارات، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے، چھین لیے گئے ۔
ان تبدیلیوں سے صوبائی حکومتوں کو مزید خودمختاری مل گئی جسے کہ روایتی طور پر وفاقی حکومت نہیں دیا کرتی تھی۔فوج کو وزرائے اعظم کے خلاف صدارتی اختیارات کے استعمال سے محروم کر دیا گیا۔اور فوجی بغاوتوں کے خلاف آئینی رکاوٹوں کو مزید مضبوط کر دیا گیا۔مشرف کی معزولی کے بعد منتخب غیر فوجی رہنماو¿ں نے قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور بجٹ مختص کرنے پر فوجی کنٹرول ختم کر دیا۔جنرلوں نے ان چیلنجوں کا جواب جمہوری حکومتوں کو گرانے کے بجائے ان کو ہراساں کر نے کی شکل میں دیا۔اگرچہ انہوں نے غیر فوجی حکومت کی حمایت کا دکھاوا شروع کر دیا لیکن پالیسی عدم اتفاق پر پی پی پی اور پی ایم ایل این حکومتوں کو کبھی ان کی حکم عدولی کر کے اور کبھی ان کی حکومتوں کر گرانے کی دھمکی دینے جیسے مختلف راستے اختیار کرنا شروع کر دیے۔فوجی قائدین ہندوستان کے خلاف اسلامی انتہاپسندوں کے استعمال کو کم سے کم کرنے کی شریف کی خواہش اورمشرف کے خلاف 2014 میں غداری کے الزامات طے کر کے فوج کو حاصل استثنیٰ کو سیدھا چیلنج کیے جانے کی وجہ سے پی ایم ایل این حکومت سے نالاں تھے۔شریف جیسے ناپسندیدہ وزیر اعظم کی جگہ کوئی دوسرا وزیر اعظم لانے کے لیے فوجی جنرلوں کو عمران خان کی شکل میں ایسا شخص ہاتھ آگیا جو مقبول کرکٹر ہونے کے ساتھ بدعنوانیوں کے الزامات سے پاک اور روایتی سیاست دانوں کے خلاف اپنی عوام پسند بدعنوانی مخالف مہم کے باعث تعلیم یافتہ، شہری متوسط طبقے کی حمایت حاصل تھی۔
مزید برآں عمران خان جنرلوں کا ثانوی کردار ادا کرنے کے خواہاں تھے اور انہوں نے انٹر سروسزا نٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کےساتھ ساز باز کر کے 2013کے انتخابات میں، جس میں شریف بر سر اقتدار آئے تھے، دھاندلی کا الزام لگا کر2014میں شریف کے خلاف محاذ کھول دیا اور احتجاج و دھرنے شروع کر دیے جو مہینوں جاری رہے۔ فوج نے مبینہ طور پر شریف مستعفی ہونے کا دباو¿ ڈالا لیکن پی پی پی سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں نے کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کے خلاف اتفاق رائے سے فیصلہ کیا تو فوج نے پیر کھینچ لیے۔(جاری)