Will Turkey Succumb To Corona Vaccine Blackmail From China And Handover Uighurs To Beijing?تصویر سوشل میڈیا

بیجنگ: (اے یو ایس) چین اور ترکی نے 2017 میں چینی شہریوںکی حوالگی سے متعلق دو طرفہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔اس معاہدے کے تحت ‘کچھ مہاجرین’ اور ان ‘اویغور مسلمانوں’ کو واپس چین بھیجنے کی بات کی گئی ہے جن پر ‘دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے’ کا شبہ ہے۔گذشتہ سنیچر کے روز چینی پارلیمنٹ نے حوالگی کے اس معاہدے کو منظور کر لیا ہے جبکہ ترکی کی پارلیمان نے ابھی تک اس کی توثیق نہیں کی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے سے چین ترکی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اویغور مسلمانوں کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاو¿ش اوغلو نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی تک ان کے ملک نے اویغور مسلمانوں کو چین کے حوالے کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس معاہدے کو ابھی تک ترک پارلیمان نے منظوری نہیں دی ہے۔ خیال رہے کہ ترکی میں اس اقدام کی وسیع پیمانے پر مخالفت دیکھی جا رہی ہے۔ترک اراکین پارلیمان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کو اویغور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا چینی ہتھیار نہیں بننے دیا جانا چاہیے۔

یورپ میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور بطور خاص جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے اویغور مسلمان رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ چین حوالگی کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ترکی پر معاشی اور سفارتی دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے۔ان کے بقول اسی سبب چین کووڈ 19 کی ویکسین سینوویک کی پہلی کھیپ ترکی بھیجنے میں تاخیر کررہا ہے تاکہ پارلیمنٹ میں اس کی منظوری کے لیے رجب طیب اردوغان حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

انسانی حقوق کی تنظیم نورڈک مانیٹر نے بھی معاہدے کے مسودے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔جبکہ دوسری جانب چائنا ہیومن رائٹس ڈیفنس کے ترجمان لیو لین نے برطانیہ سے شائع ہونے والے اخبار ‘دی گارڈین’ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس معاہدے سے تارکین وطن مسلمانوں کو دوسرے ممالک سے چین بھیجے جانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے، جہاں واپسی کے بعد ان کو نظربندی اور اذیتوں کا سامنا ہوگا۔ 2018 میں جرمنی اور سویڈن کی حکومتوں نے الگ الگ قراردادیں منظور کیں اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک میں بسنے والے اویغور مہاجرین کو چین واپس نہیں بھیجیں گے۔

اسی طرح یوروپی پارلیمنٹ نے دو قراردادیں منظور کیں ہیں اور یوروپی یونین کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ بھی جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے اویغور مسلمانوں کو چین واپس نہ بھیجیں۔ اسی طرح ملائیشیا نے بھی اویغور مسلمانوں کے حق میں ایک قرارداد منظور کی ہے۔یوروپی یونین اور رکن ممالک کو یہ تشویش ہے کہ اگر اویغور مسلمان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا گیا تو وہ بھی چین کے صوبہ سنکیانگ میں ہونے والی ‘ثقافتی نسل کشی’ کا شکار ہوجائیں گے۔چین پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سنکیانگ صوبے میں رہائش پذیر تقریبا دس لاکھ اویغور مسلمانوں کو ایک ‘حراستی کیمپ’ میں رکھے ہوئے ہے اور مختلف طریقوں سے ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، جس میں مذہب کی پابندی سے لے کر خواتین کی زبردستی نس بندی اور جبری مشقت تک شامل ہیں۔

چین ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ کہا ہے کہ ان کی پالیسیاں صرف اویغور مسلمانوں کو دہشت گردی سے دور رکھنے اور ان کی مالی ترقی کے لیے ہیں۔ترکی ہمیشہ سے ہی چین کے اویغور اور ترک نسل کے مسلمانوں کو پناہ دیتا رہا ہے اور فی الحال ترکی میں مقیم اویغور اور ترک مسلمان مہاجرین کی تعداد تقریبا 50 ہزار بتائی جاتی ہے۔ یعنی کسی بھی ملک سے زیادہ اویغور مسلمان مہاجرین ترکی میں پناہ گزین ہیں۔ترکی ہمیشہ سے ہی چین میں رہنے والے اویغور ترک مسلمانوں کے معاملے میں سنجیدہ رہا ہے۔دہلی میں واقع تھنک ٹینک ویویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے یتھارتھ کچیار کا کہنا ہے کہ ترکی اور اویغور مسلمانوں کے مابین تاریخی تعلقات ہیں اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبد العزیز نے سنہ 1873 میں چین کی کوئنگ سلطنت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلحہ بھیجا تھا۔اس کے بعد سے مشرقی چین کے صوبہ سنکیانگ کے اویغور مسلمان قیادت اور پناہ کے لیے ہمیشہ ترکی پر منحصر کرتے رہے ہیں۔

سنہ 1949 میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد، ماو¿زے تنگ نے چین کے اس علاقے کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔اسی وقت سے بڑے پیمانے پر اس صوبے سے اویغور اور ترک نسل کے مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا اور انھوں نے ہی ترکی میں سیاسی پناہ لی۔ امریکہ اور اقوام متحدہ نے بھی اویغور مسلمانوں کو ترکی میں پناہ مانگنے میں مدد فراہم کی۔ ترکی نے بھی انھیں اپنی شہریت دے دی۔ترکی کے اکسرائے اور زیتونبرنو وہ علاقے ہیں جہاں سنہ 1950 کی دہائی سے آنے والے اویغور مسلمان مہاجرین آباد ہیں۔رواں سال مئی کے مہینے میں امریکہ میں ترکی کے سفیر سردار کیلک نے ترکی اور اویغور مسلمانوں کے ثقافتی اور نسلی تعلقات کو دہرا دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تعلقات ان کے ملک کے لیے بہت اہم ہیں۔لیکن کچھ سالوں سے چین اور ترکی ایک دوسرے کے قریب آنے لگے ہیں۔

اتنے قریب آئے کہ ترکی پر الزام لگنا شروع ہو گیا کہ وہ ان اویغور مسلمان مہاجرین کو چین کے حوالے کر رہا ہے جن پر چین میں دہشت گردی کے الزامات ہیں۔اگرچہ ترکی ان مہاجرین کو براہ راست چین کے حوالے نہیں کرتا تاہم یہ الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ وہ انھیں تاجکستان بھیجتا ہے جہاں سے چین کو ان کی حوالگی آسان ہوجاتی ہے۔دوسری طرف اویغور مسلمانوں کے لیے ترکی کی شہریت لینا دن بدن مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ترکی میں مقیم بہت سے اویغور مسلمانوں کا الزام ہے کہ انھیں چین سے پولیس فون پر دھمکیاں دیتی ہے کہ اگر انھوں نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آواز بلند کرنا بند نہیں کیا تو سنکیانگ میں ان کے رشتہ داروں پر ظلم کیا جائے گا۔فرانسیسی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے جرمنی میں مقیم اویغور ورلڈ کانگریس کے دلذات رکست نے کہا کہ اس حوالگی کے معاہدے سے ان اویغور مسلمانوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہے جنھیں ابھی تک ترکی کی شہریت نہیں ملی ہے۔انھوں نے ترکی کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاہدے کو اویغور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا ذریعہ نہ بننے دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *