With concessions and deals, China’s leader tries to box out Joe Bidenتصویر سوشل میڈیا

14دیگر ایشیائی ممالک سے ایک تجارتی معاہدہ۔گلوبل وارمنگ (زمینی حدت و تپش میں اضافہ) سے نمٹنے کے لیے کاربن کے اخراج کم کرنے میں دیگر ممالک کا ساتھ دینے کا عزم۔ اور اب یورپی یونین کے ساتھ ایک سرمایہ کاری معاہدہ۔ چین کے صدر شی جن پینگ نے حالیہ ہفتوں میں کئی معاہدے اور عہد کیے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ خراب کرنے کا باعث بننے والے اندرون ملک اور بیرون ملک بڑھتے تنازعات اورکورونا وائرس کو سنبھالنے کے اپنے طریقہ کار کے باوجود وہ عالمی سطح پر اپنے ملک کو ناگزیر عالمی رہنما کی حیثیت دلا دیں گے ۔ایسا کر کے انہوں نے یہ اجاگر کیا ہے کہ صدر منتخب جو بائیڈن کوچین کی مطلق العنانہ پالیسیوں اور تجارتی طور طریقوں کے خلاف حلیف ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرنے میں جو کہ چین کے ساتھ مقابلہ اور اس کی ابھرتی طاقت کو دبانے کے نئے ایڈمنسٹریشن کے منصوبے کی توجہ کا مرکز ہے، کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔یورپی یونین کے ساتھ معاہدہ پر دستخط کرنے کے لیے بدھ کے روز بلائی گئی کانفرنس میں شی جن پینگ، جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل، فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اور دیگر یورپی رہنماؤں کی تصویر بھی چین کی کمیونسٹ پارٹی کو تنہا کرنے ٹرم ایڈمنسٹریشن کی کوششوں کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف سمجھی جا رہی ہے۔یہ معاہدے چینی اقتصادیات کے، جو کہ کرونا وائرس وبا سے نمٹنے میں دنیا کے الجھے رہنے کی وجہ سے بڑے ممالک میںتیزی سے مائل بہ عروج ہے ،استحکام کے باعث شی کی طاقت کا مظہرہے۔برلن میں روڈیم گروپ سے وابستہ چینی امور پر دسترس رکھنے والے ایک دانشور نواہ بارکن نے سرمایہ کاری کو خاص طور پر چین کے لیے جغرافیائی سیاسی انقلاب بتایا۔ چینی کمپنیوں کو یورپی منڈیوں میں پہلے ہی زبردست رسائی حاصل ہے، جو یورپ میں زباں زد عام ہے۔ اس لیے انہوں نے قابل تجدید توانائی کے لیے مینو فیکچرنگ اور بڑھتی منڈی میں محض معمولی آغاز کرنے میںہی کامیابی حاصل کی۔

چین کے لیے حقیقی کامیابی سفارتی ہے۔چین کو ہانگ کانگ میں کریک ڈاو¿ن اور مغربی چینی خطہ شین جیانگ میں ایغوروں کی بڑے پیمانے پر اجتماعی گرفتاریوں اور ان سے جبری مزدوری کرانے سمیت چین کی نہایت ظالمانہ پالیسیوں کے بارے میں بڑھتے اظہار تشویش پر قابو پانے کے لیے معمولی مراعات دینا پڑیں۔چین،کاغذ پرہی سہی، چین میں کام کر رہی یورپی کمپنیوں پر عائد متعدد پابندیاں نرم کرنے،چین میں یورپی بینکوںکو کاروبار کرنے اور جبری مزدوری پر بین الاقوامی معیار پر عمل آوری کرنے پر رضامندہو گیا۔سوال یہ ہے کہ ان عہد و پیمان پر کبھی عمل آوری ہوگی بھی یا نہیں۔چین کے نقادوں کی نظر میں شی کے اقدامات بڑے جوڑ توڑ والے ہی نہیں بلکہ نہایت خود غرضانہ ہیں۔پھر بھی کافی حد تک کامیاب ثابت ہوئے ہیں جبکہ محض چند ماہ پہلے اس وقت یہ ناممکن نظر آرہا تھا جب کئی یورپی ممالک کھلم کھلا چین کی مخالفت پر اتر آئے تھے۔بارکن نے کہا کہ چینی مراعات کو اس کی پالیسی میںغیر معمولی تبدیلی سمجھنا فاش غلطی ہوگی۔گذشتہ ایک سال کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ پارٹی نے اقتصادیات پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے اور سرکاری اداروں سے اپنے کاروبار کو دوگنا کرنے اور خود کفالت کے لیے ایک نئی پیشرفت کی ہے۔یہ پالیسی اسی سمت جا رہی ہے جو شی نے متعین کی ہے۔ایسی صورت میں یہیقین کرنا آسان نہیںہوگا کہ یہ معاہدہ کچھ تبدیلی لائے گا۔اس کے بجائے چین نے ایک بار پھر دکھا دیا ہے کہ وہ ایسی کسی حرکت پر جس سے یورپی اقدار کی خلاف ورزی ہوتی ہے معمولی ہیں بلکہ کوئی سفارتی ہرجانہ ادا نہیں کرتا ۔مثال کے طور پر ووہان شہر میں کورونا وائرس وبا پھوٹ پڑنے کی ابتدائی خبر دینے والے ایک چینی وکیل کو قید بامشقت دینے پر یورپی یونین کی جانب سے شدید تنقید کیے جانے کے ایک روز بعد ہی یورپی ممالک نے سرمایہ کاری معاہدہ کر لیا ۔

نومبر میں آسٹریلیا نے بھی اسی قسم کا اس وقت ایک تجارتی معاہدہ کیا جب اس نے اپنے خلاف اقتصادی زور زبردسی کی چین کی مہم کے باوجود علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کے عنوان سے ایشیائی تجارتی معاہدے پردستخط کر دیے ۔چین کا یورپی ممالک سے پینگیںبڑھانا اس کی دباو¿ والی پالیسیوں بشمول جبری مزدوری کے دستاویزی ثبوت پر ناراضگی ختم نہیں ہوگی۔وہ ایک ایسے ملک میں جس کی اقتصادیات کورونا وائرس وبا سے دیگر ملکوں سے زیادہ تیزی سے پٹری پر واپس آگئی ہے ، تجارتی لالچ کا استعمال کر کے چین کے نقادوں کو رام کر سکتے ہیں۔اس سے بائیڈن کو بھی جھکنا پڑے گا جنہیں اندرون و بیرون ملک چین کے اقدامات سے ٹکرانے والے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی تنہاچلنے کی سوچ کے باعث یورپ میں گذشتہ چار سال سے پھیلی مایوسی کو دورکرنا ہوگی۔چین کے ایک تھنک ٹینک چین اور عالمگیریت کے مرکز کے صدر وانگ ہوئی یاؤ نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ ہامرے لیے ایک بہترین جھروکہ ہے۔انہوں نے کہا کہ چین تعاون میں ایک نمونے اور شراکت دار کے طور پر خدمت کر سکتا ہے اور خیال ظاہر کیا کہ یورپ چین اور امریکہ کے درمیان معتدل کردار ادا کر سکتا ہے۔شی نے کبھی اس کا اعتراف نہیں کیاکہ چین کی کسی بھی پالیسی نے اس کے اوپر سے عالمی اعتماد ختم کیا ہے۔ نہ ہی اعہدیداروں نے اس کی مرکزی پالیسیوں پر غور کرنے کا کوئی اشارہ دیا۔اب یہ دیکھنا ہے کہ ووہان میں کورونا وائرس وبا کے حوالے سے پوری دنیا کو اندھیرے میں رکھنے سے بین الاقوامی سطح پر مجروح ہونے والی اس کی ساکھ چین کے معاہدوں اور وعدوں سے کیسے بحال ہو گی۔ پیو ریسرچ سینٹر کے اکتوبر میں کیے گئے سروے سے علم ہوا ہے کہ اقتصادی لحاظ سے مضبوط 14ممالک چین کے تئیں اپنے غیر موافقانہ رویہ کے باعث ایک دہائی سے زیادہ مدت میں اپنی اعلیٰ ترین سطحوں پر پہنچ چکے ہیں۔امریکی صدارتی انتخابات کے بعد ایک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

ٹرمپ یورپاور ایشیا میں امریکہ کے روایتی اتحادیوں کو حقارت سے دیکھتے تھے لیکن بائیڈن نے چین سے درپیش سفارتی ،اقتصادی اور فوجی چیلنجوں کا سمان کرنے کے لیے ایک اتحاد تشکیل دینے کا عہد کر رکھا ہے۔چین کو بھی خطرہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔انتخابات کے محض دو ہفتہ بعد ہی چین نے 14دیگر ایشیائی ممالک سے تجارتی معاہدہ کر لیا۔دسمبر کے اوائل میں مرکل اور میکرون سے محض ٹیلی فونی گفتگو سے ہی شی یورپی ممالک کو سرمایہ کاری معاہدہ کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔اس سے یورپ اور امریکہ میں خطرے کی گھنٹی بج گئی ۔ بائیڈن کے مقرر کیے جانے والے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان نے ٹوئیٹر کے توسط سے اس امر کی جانب اشارہ کیا کہ یورپ کو پہلے نئی انتظامیہ سے مشاورت کرنے کے لیے انتظار کرنا چاہیے ۔لیکن وہ لا حاصل رہا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ معاہدے سے یورپ کی اقتصا د یات چین کےساتھ اور بندھ جائے گی اور چین کی اقتصادی طاقت بڑھانے میںممد د و معاون ثابت ہوگی۔ان کا یہ بھی کہان ہے کہ یہ معاہدہ چین کے ذریعہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی بشمول جبری مزدوری کو دور کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ مذاکرات کاروں نے اس معاملہ پر چین سے جو وعدے کرائے ہیں اس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ چین اس پر دیانتدارانہ عمل کرے گا۔ لیکن مبصرین نے اس ضمن میں فوری طور پر یہ نشاندہی کی کہ چین نے اپنے وہ وعدے بھی پورے نہیں کیے جو اس نے 2001میں عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت کے وقت کیے تھے ۔ سرمایہ کاری معاہدے پر عمل آوری سے قبل اس کی یورپی پارلیمنٹ سے ہرحال میں توثیق کرائی جانی چاہئے۔

فی الحال چینی عہدیداران اس معاہدے پر، جسے شی نے متوازن ، اعلیٰ معیار کا اور باہمی سود مند قراردیا ہے، بغلیں بجا رہے ہیں۔روہڈیم گروپ کے بارکن نے کہا کہ چینی قیادت کواس کے خلاف ایک ٹرانس اٹلانٹک فرنٹ کے نام سے ایک کثیر ملکی فرنٹ کے حوالے سے تشویش ہے۔اور جہاں تک میرا خیال ہے چینی قیادت یورپی ممالک کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے مراعات کی چالیں چلے گی۔وہ اس معاملہ میں بہت ہوشیار ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *