Woman facing 100 lashes and seven years in jail after claiming she was raped in Qatarتصویر سوشل میڈیا

ریاض:(اے یوایس)میکسیکو کی 27 سالہ پاولا کو قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کی تیاریوں کے سلسلے میں نوکری ملی تو انھیں لگا کہ ان کی زندگی بدلنے والی ہے۔ لیکن صرف ڈیڑھ سال بعد ان کو غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے الزام پر سات سال قید اور 100 کوڑوں کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔حیران کن بات یہ تھی کہ وہ خود پر جنسی حملے کے بعد شکایت لے کر گئی تھیں لیکن مقدمہ ان پر ہی درج کر لیا گیا جس کے بعد وہ بمشکل قطر چھوڑ سکیں۔ ان کا کیس اب ایک بار پھر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔دنیا کے مقبول ترین کھیل فٹ بال کے عالمی مقابلے اس سال پہلی مرتبہ ایک اسلامی ملک قطر میں منعقد ہو رہے ہیں۔ ایسے میں میکسیکو سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی خواتین قطر میں کتنی غیر محفوظ ہو سکتی ہیں۔لیکن جب وہ شکایت درج کروانے حکام کے پاس گئیں تو مقدمہ ان کے خلاف ہی درج کر لیا گیا۔ ان پر’غیر ازدواجی جنسی تعلقات’ کا الزام لگایا گیا، جو اسلامی قانون کے تحت ایک جرم ہے۔27 سالہ پاولا کو سات سال قید اور 100 کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔سزا سے بچانے کے لیے انھیں اپنے حملہ آور سے شادی کرنے کا راستہ اختیار کرنے کا کہا گیا۔

اپنے فیس بک صفحے پر پاولا نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو آشکار کرتے ہوئے لکھا کہ ‘اس واقعے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اپنی تعلیمی قابلیت، پیشہ ورانہ تجربے، مالی خود انحصاری اور قطری حکومت سے منسلک ہونے کے باوجود، میں دقیانوس اور نااہل اداروں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار بنی، اور انصاف کے حصول کے لیے اپنے قونصل خانے سے رجوع کرنے سے بھی قاصر ہوں۔’ یہ خاتون ان حالات سے گزرنے کے بعد گزشتہ سال قطر سے نکلنے میں کامیاب ہوئیں لیکن اس کے بعد بھی ان کو انصاف نہیں مل سکا اور ان پر حملہ کرنے والا آزاد گھوم رہا ہے۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ میکسیکن اور خاص طور پر صنف نازک یا ہم جنس پرست جو اس سال ورلڈ کپ کے سلسلے میں قطر جانا چاہتے ہیں وہ اس ظالمانہ نظام کا شکار ہو سکتے ہیں۔میکسیکو کے وزیر خارجہ مارسیلو ایبرارڈ نے گزشتہ جمعے کو پاولا سے ملاقات کی اور یقین دلایا کہ ان کے دفاع کے لیے بہترین وکیل مہیا کیا جائے گا۔انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ جب تک ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر میکسیکو اور بین الاقوامی اخبارات میں خبریں شائع نہیں ہوئیں ان کی مدد کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوا۔پاولا 2019 سے مشرق وسطیٰ میں مقیم تھیں اور فروری 2020 میں وہ ورلڈ کپ کی منتظم سپریم کمیٹی میں ماہر اقتصادیات کے طور پر کام کرنے کے لیے پہنچیں۔یہ نوکری پاولا کے خوابوں کی تعبیر تھی لیکن جون 2021 میں ان کی دنیا بدل گئی اور ان کے خواب چکنا چور ہو گئے۔میکسیکو سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے یہ شکایت درج کروانے کی کوشش کی کہ رات کے وقت جب وہ سو رہی تھیں دوحہ میں لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص انھیں زبردستی اپنے اپارٹمنٹ میں لے گیا اور انھیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔وہ حملے کی اطلاع دینے کے لیے پولیس کے پاس پہنچیں، لیکن عربی زبان سے واقف نہ ہونے اور میکسیکو کے قونصل خانے یا کسی غیر ملکی وکیل سے پیشگی مشورہ نہ کرنے کی وجہ سے جلد ہی صورت حال ان کے لیے انہتائی پیچیدہ رخ اختیار کر گئی۔

انھوں نے میکسیکو کے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ دوحہ میں میکسیکو کے قونصل خانے سے انھیں درست مشورہ نہیں دیا گیا کہ ملکی قوانین کے تحت کس طرح یہ شکایت ان کے لیے ہی مسئلہ بن سکتی ہے۔مبینہ حملہ آور کو حکام کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن اس نے ایک ایسی قانونی دلیل پیش کی جو اس کے حق میں جاتی تھی: اس نے دعویٰ کیا کہ اس کا سکیکیٹ سے تعلق تھا۔پاولا نے کہا کہ ‘اگرچہ میرے پاس الزام ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا، لیکن میرے پاس اپنی بے گناہی کا بھی کوئی ثبوت نہیں تھا۔ حکام نے عدم شواہد کی وجہ سے میرے ساتھ ایک مجرم جیسا سلوک کیا۔میکسیکو کی وزارتِ خارجہ کے مطابق قطری حکام نے تحقیقات شروع کیں جس کے نتیجے میں حملہ آور پر زنا کا الزام عائد کیا گیا۔غیر قانونی جنسی تعلقات کے بارے میں قانون بہت سخت ہے اور شادی سے پہلے یا شادی کے بعد کسی غیر محرم سے جنسی تعلقات کو زنا تصور کیا جاتا ہے جس کی سزا سات سال قید اور 100 کوڑے ہیں۔کوڑوں کی سزا سے خواتین کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔اسلامی قانون کے تحت خواتین اور مردوں دونوں کو سرعام کوڑوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔ قطر کے قوانین میں مذہبی (شریعی) ضابطوں کے تحت کچھ جرائم پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔اس مقدمے میں، پولیس نے مدعی سے ‘کنوارے پن کا ٹیسٹ’ کروانے کا کہا جسے پاولا نے ‘غیر انسانی، ذلت آمیز اور دوبارہ اذیت پہنچانے والے قرار دے کر ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور طلاق کا سرٹیفکیٹ پیش کر کے چھٹکارا پا لیا۔

انھوں نے کہا، ‘پراسیکیوٹر آفس نے مجھے اس شرط پر رہا کیا کہ میں ‘زناکاری’ کیس کی تحقیقات مکمل ہونے تک اپنا سیل فون ان کے حوالے کر دوں۔‘اگرچہ انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا، لیکن مبینہ حملہ آور کو بھی ضمانت پر رہائی مل گئی جس کی وجہ سے انھیں ملک میں رہنے کی صورت میں اپنے تحفظ کے بارے میں تشویش ہوئی۔پاولا نے نشاندہی کی کہ قطر میں میکسیکو کے سفارت خانے نے پہلے تو انھیں تعاون کی پیشکش کی لیکن وہ بھی ‘مقامی ثقافت، قوانین اور زبان سے پوری طرح واقف نہیں تھے جس کی وجہ سے انصاف کے حصول میں دشواری پیش آئی۔‘انھوں نے کہا کہ قونصل خانے کی طرف سے انھیں جو تعاون ملا وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ جب انھوں نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں تو میکسیکو کے حکام نے ان سے مکمل لاتعلقی اختیار کر لی اور مکمل طور پر انھیں تنہا چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ ملزم کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کے خدشات کو بھی مسترد کر دیا۔انھوں نے بتایا کہ حملے کے 20 دن بعد وہ قطر چھوڑنے میں کامیاب ہو گئیں۔میکسیکو کے بہت سے باشندوں نے پاولا کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا، جنھوں نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ان کے معاملے میں انصاف ہو گا اور وہ قطر واپسی کے امکان کو بھی رد نہیں کرتیں۔اس مقدمہ کی آئندہ سماعت دوحہ میں2مارچ کو ہے جس کے لیے وہ تیاری کر رہی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *