Women activists decry inaction in Hathras incidentتصویر سوشل میڈیا

لکھنؤ:(اے یو ا یس) اتر پردیش حکومت ہماری آوازوں کو دبا نہیں پائے گی۔ ہم اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے سڑک پر بھی اتریں گے اور عدالت بھی جائیں گے۔ مختلف فعال تنظیموں سے وابستہ خواتین اور سماجی اراکین کے یہ خیالات ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اتر پردیش کا سماجی منظر نامہ بہت تیزی سے تبدیل ہورہا ہے اور اب سبھی مذاہب ،سبھی تنظیموں اور جماعتوں کے لوگ موجودہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے سر پر کفن باندھنے کو تیار ہیں۔ بے روزگاری، رشوت خوری، پولس کے ذریعے ناجائز وصولی اور بے لگام ہوچکے جرائم پیشہ لوگ، مسائل بہت سے ہیں لیکن خواتین اب کھل کر اس احساس کو آشکار کر رہی ہیں کہ یوگی حکومت میں وہ عدم تحفظ کی شکار ہیں۔

معروف سماجی کارکن نائش حسن کہتی ہیں کہ آبرو ریزی کی شکایتیں اور بچیوں کا قتل ریاست اتر پردیش میں معمولی بات ہو گئی ہے۔ حکومت کے اشارے اور سیاسی آقاو¿ں کے حکم پر کام کرنے والی پولس کے پاس انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ اتر پردیش میں پولس کا مطلب اب لوگوں کو انصاف دلانا نہیں بلکہ سرکار کے اشارے پر بے قصور لوگوں کو مجرم بنانا اور اصل مجرموں کو چھپانا ہے۔ نائش یہ بھی کہتی ہیں کہ ہر محاذ پر ناکام حکومت اپنی ناکامی اور بد عنوانی کو چھپانے کے لیے نہ احتجاج کرنے کی اجازت دیتی ہے نہ آواز بلند کرنے کا حق۔

جو لوگ حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال کے عوام میں دہشت کا ماحول پیدا کیا جارہاہے بالخصوص مسلم اور دلت سماج کے لوگوں کو خوف زدہ کرکے آئندہ الیکشن کا میدان تیار کیا جارہا ہے۔معروف سماجی کارکن اور آل انڈیا مسلم خواتین پرسنل لا بورڈ کی صدر شائستہ عنبر کہتی ہیں کہ یوگی راج میں ناری سمان کی جو دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ یہ ایسی حکومت ہے جس میں مجرم بے خوف اور معصوم خوف زدہ ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ زیادہ مجرمین کو بر سر اقتدار جماعت کی سر پرستی و پشت پناہی حاصل ہے۔ جس پردیش میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو دہشت گرد بتا کر ان کے پوسٹر اور ہورڈنگز لگائے جائیں اور زنا بالجبر کے مجرمین کو بچانے کی کوششوں میں خود سرکار ملوث ہو وہاں عوام کیا امید کر سکتی ہے۔ کیسے سکون سے رہ سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *