فیصل فاروق

عالمی یومِ خواتین، خواتین کی سماجی، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی کامیابیوں کا عالمی جشن ہے۔ گزشتہ برسوں میں خواتین کے حقوق، مساوات اور انصاف کیلئے بے مثال عالمی تحریک دیکھی گئی۔ عالمی یومِ خواتین بین الاقوامی طور پر8مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اِس کا ایک اہم ترین مقصد خواتین کی اہمیت سے دنیا کو آگاہ کرنا اور لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنے کیلئے ترغیب دینا ہے۔ یہ ایک ایسا دن ہے جب خواتین کو اُن کی کامیابیوں کیلئے بغیر کسی قومی، نسلی، لسانی، ثقافتی، معاشی یا سیاسی بھیدبھاﺅکے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا جو ہر دن یومِ خواتین ہوتا۔عالمی یومِ خواتین کو منظم کرنے کا بنیادی مقصد خواتین اور مردوں کے درمیان مساوات کی سطح کو برقرار رکھنا تھا، لیکن یہ مساوات اور برابری آج بھی کئی شعبوں میں نہیں دیکھی جاتی ہے۔

خواتین اور مردوں کی اجرت میں اختلافات دنیا بھر میں ہنوز مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اِس کے علاوہ تجارت اور سیاسی شعبہ میں بھی آج تک خواتین اور مردوں کی مساوی تعداد نہیں بن پائی ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر خواتین کی تعلیم اور صحت دونوں ہی ماضی کی طرح خراب حالت میں ہیں۔ اُن کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھی کوئی کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے مطابق خواتین اور مردوں کے درمیان کا یہ فرق 2186ءتک کچھ حد تک کم کیا جا سکے گا۔

خواتین کی آبادی دنیا کی آبادی کا نصف ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ نصف آبادی میں علم، ہنرمندی، نظریات، خیالات اور کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ خواتین جسمانی، ذہنی اور سماجی طور پر مضبوط ہوں۔ مناسب طریقے سے خواتین کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے، خواتین کو دوسرے شعبوں میں بھی فعال طور پر حصہ لینے کیلئے کچھ فیصد نشستیں محفوظ رکھی جاتی ہیں۔ خواتین کو حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولیات اور اُن کے حقوق کی مکمل معلومات دینے کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ چنانچہ حکومت کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے تاکہ خواتین اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔

بلاشبہ خواتین نے زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ مگر یہ تو ابھی شروعات ہے، آگے اُنہیں اپنے حقوق کیلئے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ موجودہ ہندوستان میں خواتین کی حالت کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔ خواتین کے خلاف ہو رہے جرائم میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس معاملہ میں معاشرے میں رہنے والے محض کسی فرد، کسی تنظیم یا کسی فلاحی ادارے کو نہیں بلکہ حکومت کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ خواتین کی خودمختاری اور تحفظ کے بڑے بڑے دعوے کرنے یا صرف بیٹی بچاﺅ، بیٹی پڑھاﺅ کا نعرہ دینے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ کوئی بھی ملک ترقی کی بلندیوں پر تب تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اُس کی خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ نہ چلیں۔

اِس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ خواتین کے مسائل حل کرنا ایسے ہی ہے جیسے دنیا کے بہت سے مسائل کو حل کرنا۔ ہم غور کریں کہ صدیوں سے عورتیں دستور زباں بندی پرعمل کرتی آئی ہیں۔ روایات اور رسوم عورتوں کو لب کشائی کا موقع نہیں دیتے، لیکن آج کے اِس جدید ترین دور میں ایسا لگ رہا ہے کہ عورتیں خاموشی کا پردہ چاک کر رہی ہیں، گرچہ مردوں کی بہ نسبت وہ اپنا بچاﺅشاذ و نادر ہی کرتی ہیں۔ نہ جانے کیوں خاموش رہتی ہیں؟ لیکن اب اُن سے کہا جا رہا ہے جو کہنا ہے کھل کر کہیں، اپنی تکالیف اور احساس جرم کی گراں باریوں کا خاکہ نہ کھینچیں بلکہ خود ساختہ جیلوں کے درودیوار کو توڑ کر اپنی خاموشی توڑ دیں۔ ہمت سے کام لیں، احساس میں پختگی پیدا کریں۔ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خواتین ایک نئے معاشرے کی تشکیل کر سکتی ہیں۔

کیفی اعظمی نے اِنہی جذبات کا شعری اظہار اِس طرح کیا ہے
توڑ کر رَسم کا بُت بندِ قدامت سے نِکل
ضعف عِشرت سے نِکل وہم نزاکت سے نِکل
نفس کے کھینچے ہوئے حَلقئہ عظمت سے نِکل
قید بن جائے محبت تو محبت سے نِکل
راہ کا خار ہی کیا گُل بھی کُچلنا ہے تجھے
اُٹھ مِری جان مِرے ساتھ ہی چَلنا ہے تجھے

(فیصل فاروق ممبئی میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صحافی ہیں)
ای میل:columnistfaisal@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *