کابل:(اے یوایس) عالمی بینک نے اعلان کیا ہے کہ اس نے افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند رکھنے کے طالبان کے فیصلے کے بعد افغانستان میں 60 کروڑ ڈالر مالیت کے 4پراجکٹ روک دیے ۔یہ چار منصوبے افغانستان تعمیر نو ٹرسٹ فنڈ (اے آر ٹی ایف) کے تحت اقوام متحدہ نے شروع کیے جانے تھے تاکہ معاشی بحران کے شکار ملک کو زراعت، تعلیم، صحت اور روزگار سے متعلق شعبوں میں مدد فراہم کی جائے۔واضح ہو کہ طالبان نے ملک میں درجہ ششم سے اوپر کے اسکولوں میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی برقرار رکھی ہے۔
عالمی بینک نے لڑکیوں کے اسکولوں کو بند رکھے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان تعمیر نو ٹرسٹ فنڈ کے تحت شروع ہونے والے تمام منصوبوں کا مقصد خواتین اور لڑکیوں کی ہر شعبے میں مساوی رسائی ممکن بنانا ہے۔عالمی بینک نے کہا ہے کہ چاروں منصوبے افغانستان تعمیر نو ٹرسٹ فنڈ کو منظوری کے لیے تب پیش کیے جائیں گے جب عالمی بینک اور بین الاقوامی شراکت داروں کو صورتحال کا بہتر اندازہ ہو جائے گا اور یہ اعتماد ہوگا کہ منصوبوں کے اہداف مکمل کیے جا سکیں گے۔تاہم عالمی بینک نے فی الحال واضح نہیں کیا کہ متعلقہ منصوبے منظوری کے لیے کب پیش کیے جائیں گے۔خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے بدھ کو طالبان حکومت نے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کھولنے کے چند گھنٹے بعد پھر سے بند کرنے اور طالبات کو گھر لوٹ جانے کا حکم دیا تھا جس پر طالبات میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی تھی۔
علاوہ ازیں ہفتہ کے روز قطر میں منعقدہ دوحہ فورم 2022 کے موقع پر امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ٹام ویسٹ نے لڑکیوں کے ا سکولوں کی بندش پر طالبان رہنما¶ں کے ساتھ ہونے والی تمام ملاقاتیں منسوخ کر دی تھیں۔عالمی بینک کے ایگزیکٹو بورڈ نے یکم مارچ کو اے آر ٹی ایف میں سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ فنڈز استعمال کرنے کی منظوری دی تھی تاکہ تعلیم، زراعت، صحت اور فیملی پروگرامز سے متعلق منصوبوں کو مالی امداد فراہم کی جا سکے۔ یہ رقم طالبان حکومت کے بجائے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کی نگرانی میں تقسیم ہو گی۔
گزشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اے آر ٹی ایف کو منجمد کر دیا گیا تھا جبکہ دیگر ممالک نے بھی مالی امداد کی فراہمی بند کر دی تھی جس پر حکومتی اخراجات کا 70 فیصد منحصر تھا۔جب افغانستان میں نئے منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے اے آر ٹی ایف کے تحت فنڈز بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو عالمی بینک نے یہ شرط رکھی تھی کہ اس مدد سے لڑکیوں اور خواتین کو بھی فائدہ پہنچائے جائے گا اور ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔
