سہیل انجم
اس وقت پوری دنیا ایک ایسے دشمن سے مصروف جنگ ہے جو دکھائی نہیں دیتا، جو اندھیرے کا تیر ہے، جو کبھی بھی کسی کو بھی آکے لگ سکتا ہے اور اس کی زندگی کی شمع گل کر سکتا ہے۔ایشیا ہو یا افریقہ، امریکہ ہو یا یوروپ، خطہ¿ خلیج ہو یا کسی اور علاقے کا کوئی ملک سب اس کی زد پر ہیں اور سبھی تباہی و بربادی کے اندیشے میں مبتلا ہیں۔ چین میں پیدا ہونے والے اس دشمن نے چین میں تو کشتوں کے پشتے لگائے ہی، اب اس نے رفتہ رفتہ دوسرے ملکوں کا رخ کر لیا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پوری دنیائے انسانیت اس کے پنجے میں پھنسی پھڑپھڑا رہی ہے۔ وہ ترقی یافتہ قومیں جنھیں اپنی سائنسی و طبی ترقیات پر ناز تھا اس کو مات دینے سے قاصر ہیں۔ اب تو صورت حال یہ پیدا ہو گئی ہے کہ بھاگو اور بھاگو۔ اس نادیدہ دشمن سے بھاگو جہاں تک بھاگ سکتے ہو بھاگو۔ خود کو اپنے گھروں میں قید کر لو۔ خبردار باہر مت نکلو۔ لوگوں سے ملنا جلنا بند کر دو۔ بھول جاؤ تمام ادب و آداب۔ نہ تو کسی کے گھر جاؤاور نہ ہی اپنے گھر کسی کو بلاؤ۔ کسی سے سلام دعا تک مت کرو۔ ہاتھ ملا کر اظہار اپنائیت سے گریز کرو۔ کیوں؟ اس لیے کہ پتہ نہیں یہ دشمن کہاں گھات لگائے بیٹھا ہے۔ کس کے کپڑوں کو ا س نے اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ کس کے ہاتھوں اور انگلیوں پر اس نے اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ کس شے پر بیٹھا وہ اپنے شکار کی تاک میں ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ خود کو خانہ قید کر لو۔ اس سوچ نے اور اس احتیاطی تدبیر نے آج پوری دنیا کو ایک عالمی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک ایسی جیل کہ ہر ایک گھر بھی جیل بن گیا ہے۔ فیملی سربراہ جیلر ہے اور باقی افراد خانہ قیدی ہیں۔ جیلر کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا۔
بڑی بری طاقتیں اس کے آگے ہیچ ہو گئی ہیں۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر اس نظر نہ آنے والے عفریت سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پوری دنیا میں 21 ہزار سے زائد افراد اس کے شکار بن کر اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد اس کے شکنجے میں ہیں۔ ان میں سے کتنے واپس اپنی زندگی پا سکتے ہیں کہا نہیں جا سکتا۔ اب تک کے حالات تو یہی ہیں کہ ا س نے جس کی گردن پکڑلی اس کی رہائی کے امکانات معدوم ہو گئے۔ حالانکہ کچھ لوگ اس کی گرفت سے آزاد بھی ہو چکے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ذرا سوچیے کہ چین جیسا ملک جو سپر پاور بننے کی کوشش میں ہے اور جو امریکہ کے بعد دنیا کا دوسرا طاقتور ملک ہے بے بس ہو گیا۔ امریکہ جو کہ سپر پاور ہے جس کی طاقت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ ہندوستان جو کہ وشو گرو بننے کی کوشش میں ہے بے یار و مددگار ہے۔ اٹلی میں بھی کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں، امریکہ میں بھی، اسپین میں بھی اور ایران میں بھی۔ ہندوستان اور پاکستان اب اس کی گرفت میں آئے ہیں اور اس کے شکار کی تعداد دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور کہا نہیں جا سکتا کہ کب کون اس کا اگلا شکار بن جائے۔
اس نادیدہ دشمن کا نام کروناوائرس ہے۔ جانس ہاپکنس یونیورسٹی کی ایک پوسٹ کے مطابق یہ کوئی جاندار شے نہیں ہے بلکہ Protein Molecula ہے جو مرتا نہیں بلکہ اپنے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے ختم ہونے کا انحصار درجہ حرارت اور رطوبت پر ہے۔ چونکہ یہ کوئی جاندار شے یا کوئی جراثیم نہیں ہے اس لیے اس کو ختم کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ یہ حالات کے مطابق کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے اندیشہ یہی ہے کہ اس سے جلد نجات ملنے والی نہیں ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا تو یہ اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ لیکن بعض دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ بہر حال وہ درجہ حرارت جو اس کے خاتمے کا سبب بنے ابھی آیا نہیں ہے اور اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو ابھی اس تک پہنچنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ تب تک تو وہ جانے کتنے لوگوں کو نگل لے گا۔ کتنوں کی جانیں ضائع ہو جائیں گی۔
ہم جیسے لوگوں نے اس سے قبل ایسی کوئی آفت یا قدرت کا عذاب نہیں دیکھا جس نے بیک وقت پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ آندھی طوفان آتا ہے تو کسی ایک علاقے میں آتا ہےے۔ کوئی وبائی بیماری پھیلتی ہے تو کسی ایک علاقے میں پھیلتی ہے۔ سونامی آتی ہے تو کسی ایک ملک میں آتی ہے۔ سیلاب آتا ہے تو کسی ایک خطے میں آتا ہے۔ خشک سالی آتی ہے تو کوئی ایک خطہ اس کی زد میں آتا ہے۔ غرضیکہ ایسا اس سے قبل دیکھا نہیں گیا کہ پوری دنیا بیک وقت ایک ہی قسم کے عذاب میں مبتلا ہو گئی ہو۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کرونا کو برا مت کہو کہ اس نے بہت سی برائیوں کو ختم کر دیا ہے۔ رقص و سرود کی محفلیں اجاڑ دی ہیں۔ قحبہ خانے بند ہو گئے ہیں۔ جوا خانوں میں قفل چڑھ گیا ہے۔ سنیما ہالوں میں الو بولنے لگے ہیں۔ ایسے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں برائی بہت زیادہ پھیل گئی تھی اس لیے قدرت کو جلال آگیا اور اس نے دنیا پر ایک عذاب نازل کر دیا۔ یہ باتیں اپنی جگہ پر درست ہو سکتی ہیں۔ ان سے انکار کی جرآت نہیں۔ کیونکہ بہر حال عذاب الٰہی تو آتا ہی رہا ہے۔ یہ بھی کوئی عذاب ہو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اس نے جہاں بہت سی چیزیں بند کر دی ہیں وہیں اس نے عبادت گاہوں پر بھی تالے لگوا دیے ہیں۔ ہندوستان سمیت کئی ملکوں میں لاک ڈاون ہے۔ یعنی سب کچھ بند ہے۔ صرف لازمی اشیا کی دکانیں کھلی ہیں۔ دفاتر بند ہیں۔ لوگ اپنے گھروں سے کام کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کام کی نوعیت پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔ عبادت گاہوں کے بند ہونے کی وجہ سے عبادت گزار اپنے
گھروںمیں عبادت کر رہے ہیں۔ مسجدیں ویران ہو گئی ہیں۔ پنج وقتہ اذانیں تو ہو رہی ہیں لیکن نماز باجماعت نہیں ہو رہی ہے۔ بس جو چند مصلی مسجدوں میں ہیں وہی مسجدیں آباد کیے ہوئے ہیں۔ اب تو نماز جمعہ پر بھی پابندی لگ گئی ہے۔ ہم نے اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں اس سے قبل ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ نماز جمعہ تک پر پابندی لگ گئی ہو۔ یہ تو دیکھا کہ موسم باراں میں عیدین کی نمازیں محلے کی مسجدوں میں پڑھی گئیں۔ لیکن یہ نہیں دیکھا کہ جمعہ کی نماز نہیں ہوئی۔ لوگوں نے گھروں میں ظہر کی نماز ادا کی۔
غرضیکہ کروناوائرس نے پوری دنیا کا نظام درہم برہم کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا کی توجہ صرف ایک چیز پر مرکوز ہے کہ کس طرح اس دشمن پر قابو پایا جائے اور کیسے اس سے نجات حاصل کی جائے، کیسے اس سے جنگ جیتی جائے۔ لیکن سردست اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ آبادیاں خالی ہو رہی ہیں قبرستان و شمشان آباد ہو رہے ہیں۔ موت کا ہرکارہ نقارہ بجا کر نقد جاں لوٹ رہا ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com