نیویارک:کوروناوائرس کے عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد اسے مزید پھیلاؤ سے روکنے نیز اس پر قابو پانے کے لیے عالم گیر سطح پر ہونے والے لاک ڈاؤن سے خاندان کے خاندان گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں جس سے تمام ممالک خاص طور پر یورپی اور دیگر مغربی ممالک میں خانگی تشدد کے خدشات نے سر ابھار لیا ہے۔

کوروناوائرس کی تباہکاریوں میں چین کو پیچھے چھوڑنے والے یورپ کو اس وبا کا مرکز قرار دیے جانے کے بعدبرلن سے پیرس ، میڈرڈ، روم اور براٹیسلاؤ (یوگو سلاویہ کا دارالخلافہ) تک خانگی تشدد کے شکار افراد کو قانونی و اخلاقی تعاون بہم پہنچانے والی انجمنوں نے بھی خانگی تشدد بھڑک اٹھنے کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

خواتین کی دلجوئی و امدادی مراکز کی جرمن وفاقی انجمن (بی ایف ایف) کے مطابق لاتعداد افراد ایسے ہیں جن کے لیے گھر پہلے ہی محفوظ نہیں تھا اور ان کا زیادہ تر وقت گھر سے باہر ہی گذرتا تھا لیکن اس لاک ڈاؤن کے باعث جو ان کی جان بچانے کے لیے ہی نافذ کیا گیاہے ان کے لیے کسی وبال جاں سے کم نہیں ہے۔

کیونکہ اب وہ جبراًگھروں کے اندر رہ رہے ہیں جس سے وہ اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنا کورونا وائرس کے خطرے سے ہیں۔ ویسے بھی مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انسان ایک سماجی جانور ہے اور سماجی تنہائی اس کے لیے اعصاب شکن واقعہ ہے ۔

لیکن واقعہ سخت ہے مگر جان عزیز کے مصداق وہ یہ سماجی تنہائی بادل نخواستہ قبول تو کر رہا ہے لیکن اس سے گھروں کے اندر کشیدگیاں بڑھ رہی ہیں اور گھروں کی فضا مکدر ہوتی جا رہی ہے جو کسی بھی وقت خواتین اور بچوں کے خلاف خانگی اور جنسی تشدد کا باعث بن سکتی ہیں۔

اگرچہ اس قسم کے خدشات و اندیشے ایشیائی ممالک خاص طور پر ہندوستان ،پاکستان و بنگلہ دیش میں تو کم ہیں لیکن غیر ایشیائی ممالک جہاں ہر قسم کی آزادی ہے بہت زیادہ ہیں۔ تاہم خانگی تشدد کے خطرات محض غیر ایشیائی ممالک تک ہی محدود نہیں ہیں جہاں گھریلو مار پیٹ پہلے ہی سے ایک مسئلہ ہے بلکہ ان ایشیائی ممالک میں بھی ہے جہاں اس قسم کی وارداتیں نسبتاً کم ہوتی ہیں۔

کیونکہ خانہ قید، ملازمتیں ختم ہونے کے خوف اور مالی مشکلات سے ایشیائی ممالک کے لوگ بھی اعصابی کشیدگی میں مبتلا ہوسکتے ہیں جس سے ایشیائی ممالک کے خاندانوں میں بھی خانگی تشدد بڑھ سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *